القادر ٹرسٹ کیس: بشریٰ بی بی کا برطانیہ کی ایجنسی کے ساتھ ہوئے تصفیے پر لاعلمی کا اظہار

اپ ڈیٹ 07 جون 2023
بشریٰ بی بی نے نیب کے نوٹس پر جواب جمع کرادیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
بشریٰ بی بی نے نیب کے نوٹس پر جواب جمع کرادیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے جاری کردہ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان تصفیہ کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔

انسداد بدعنوانی کے ادارے نے بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی سربراہ کو 7 جون (آج) القادر یونیورسٹی کی رجسٹریشن، عطیات اور دیگر تفصیلات سے متعلق دستاویزات کے ساتھ راولپنڈی آفس میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ سے حکومت پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔

اپنے جواب میں بشریٰ بی بی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے بیورو سے درخواست کی تھی کہ وہ سماعت 8 جون (کل) کو منتقل کردے کیونکہ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہونا تھا۔

اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ وہ سخت پردہ کرتی ہیں بشریٰ بی بی نے کہا کہ وہ گزشتہ پیشی پر اسلام آباد اپنے شوہر کے ہمراہ آئی تھیں اور 8 جون کو بھی اپنے شوہر کے ہمراہ نیب میں پیش ہوں گی۔

انہوں نے احتساب بیورو سے درخواست کی کہ وہ جمعرات کی نیب پیشی کو منتقل کر دے۔

بشریٰ بی بی نے مزید کہا کہ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کو دیے گئے عطیات ’عطیات کی آڑ میں‘ نہیں تھے بلکہ یہ حقیقی عطیات ہیں جو صرف القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے فائدے کے لیے دیے گئے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے دیے گئے تمام عطیات (بشمول زمین، عمارت، فنڈز وغیرہ) القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کے خصوصی استعمال اور فائدے کے لیے ہیں، ٹرسیٹز سمیت کسی فرد کے کسی بھی طریقے سے استعمال یا فائدہ کے لیے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا فرض ہے کہ وہ ’ان سے مانگی گئی معلومات کی شناخت اور تفصیلات بتائے‘ اور ساتھ ہی اس کیس میں ان کی تفصیلات اور ان کے ملوث ہونے کے درمیان تعلق کو بھی بتائے۔

سابق خاتون اول نے کہا کہ مجھے برطانیہ کی این سی اے اور ملک ریاض فیملی کے درمیان ہونے والی کارروائی سے متعلق یا مذکورہ کارروائی کے مطابق این سی اے اور ملک ریاض کے خاندان کے درمیان طے پانے والی شرائط یا فنڈز کی واپسی سے متعلق یا برطانیہ سے پاکستان فنڈز کی واپسی یا وفاقی کابینہ کی کارروائی اور اس کی جانب سے 3 دسمبر 2019 کو کیے گئے فیصلے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک ریاض حسین یا ان کے خاندان کے کسی فرد/بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے مجھے یا جہاں تک میری معلومات کے مطابق کسی دوسرے ٹرسٹی کو ایسی کوئی زمین، نقد، تحفہ یا کوئی قیمتی چیز نہیں دی گئی تھی۔

بشریٰ بی بی نے اپنے جواب میں وضاحت کی کہ ’براہ کرم نوٹ کریں کہ میں نے ٹرسٹ کو کوئی عطیہ نہیں دیا‘۔

نیب کی جانب سے مانگی گئی دستاویزات کے حوالے سے بشریٰ بی بی نے کہا کہ وہ ٹرسٹ کے چیف فنانشل افسر کے پاس ہیں، جنہوں نے انہیں بتایا تھا کہ وہ 23 مئی کو ان دستاویزات کی مصدقہ کاپیاں نیب کے پاس جمع کرا چکے ہیں۔

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے 19 کروڑ پاؤنڈ اسکینڈل میں تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی 7 جون کو طلب کیا تھا۔

بشریٰ بی بی کو بھیجے گئے نوٹس میں ہدایت کی گئی تھی کہ 7 جون کو صبح 11 بجے نیب راولپنڈی کے دفتر جی-6 اسلام آباد میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں اور بھیجے گئے سوالات کے جواب تحریری شکل میں جمع کرا دیں۔

نیب کی جانب سے نوٹس میں القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ، القادر یونیورسٹی پروجیکٹ انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ اور القادر ٹرسٹ کی رجسٹریشن سمیت دیگر تمام دستاویزات ساتھ رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

القادر ٹرسٹ کیس

سال 2018 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈز مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا تھا۔

این سی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق تصفیے میں برطانیہ کی ایک جائیداد، 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن، شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈ تھی اور تمام رقم ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں آگئیں۔

اسی سال جب یہ پتا چلا تھا کہ ملک ریاض نے کراچی کے مضافات میں ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے عوض ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ کمپنی، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے 460 ارب روپے کے سیٹلمنٹ واجبات کی پیشکش قبول کر لی تھی۔

این سی اے کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ کیا تھا کہ برآمد شدہ رقم، سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی میں جائیں گے۔

بعد ازاں جب این سی اے نے 3 دسمبر کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی۔

بعد میں اس ابہام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں ہے؟ لہٰذا اگر پیسہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس آتا ہے‘۔

جون 2022 میں یہ معاملہ ایک مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد دوبارہ سامنے آیا جس میں مبینہ طور پر ملک ریاض اور ان کی بیٹی کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جس میں دونوں کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان عرف گوگی کے فرضی مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے کچھ مبینہ احسانات پر، خاتون نے اپنے والد کو بتایا کہ فرح نے انہیں بتایا تھا کہ (سابق) خاتون اول نے ان سے 3 قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی قبول نہ کرنے کو کہا تھا اور 5 قیراط کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ برس یکم دسمبر کو بظاہر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں قومی احتساب بیورو نے علی ریاض اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو پیش ہونے کو کہا۔

نیب کے نوٹس میں کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا معاہدہ کیا۔

مزید برآں میسرز بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، چار مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہٰذا آپ کے پاس ہر وہ معلومات/شواہد ہیں جو مذکورہ جرم (جرائم) کے کمیشن سے متعلق ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اہلیہ ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں