چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے سماعت بغیر کارورائی ملتوی کر دی۔

ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل سپریم کورٹ کا 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کرنا تھی۔

رواں ماہ یکم جون کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں، دونوں قوانین کو باہمی تضاد سے بچانے کے لیے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظور ترامیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

عدالت عظمیٰ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں ہیں، 2 درخواستیں وکلا اور 2 درخواستیں شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا ہے کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے، آرٹیکل 183/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جاسکتا۔

سپریم کورٹ سے متعلق بل کا قانون بننے تک کا سفر

خیال رہے کہ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزر جانے پر از خود منظور ہوکر 21 اپریل کو قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

28 مارچ کو وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی سے اسے متعدد ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں 29 مارچ کو مذکورہ بل وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا۔

بل کی منظوری کے وقت حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی تھی، تاہم چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔

بعد ازاں 30 مارچ کو سینیٹ سے بھی یہ بل اکثریت رائے سے منظور ہوگیا تھا۔

سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے تھے، جبکہ بل کی شق وار منظوری کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت اپوزیشن ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑی اور احتجاج کیا اور شور شرابا کیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد 30 مارچ کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردیا تھا۔

تاہم صدر مملکت نے 8 اپریل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

صدر مملکت عارف علوی نے کہا تھا کہ مذکورہ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، لہٰذا بل کی درستی کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے دوبارہ غور کرنا چاہیے، اس لیے واپس کرنا مناسب ہے۔

صدر مملکت کی جانب سے مذکورہ بل واپس بھیجے جانے کے بعد 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسے دوبارہ منظور کرلیا گیا تھا۔

13 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا، سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر یہ بل از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا اور بل منظوری کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے باقاعدہ نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا تھا۔

2 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مذکورہ بل پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے بل پر سماعت کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا جس میں بینچ کی تشکیل پر کیے گئے اعتراض کا ذکر شامل نہیں تھا۔

تحریری حکم نامے کے مطابق مذکورہ بل کے ایکٹ بننے کے بعد داخل نئی درخواستوں پر بھی فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، ان درخواستوں میں اہم آئینی نکات اٹھائے گئے ہیں جس پر فریقین 8 مئی تک جامع جوابات جمع کرائیں۔

6 مئی کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں