بجٹ میں چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کیلئے 10ارب روپے مختص

10 جون 2023
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ایز آسان فنانس اسکیم و دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے—فائل فوٹو: ڈان
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ایز آسان فنانس اسکیم و دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے—فائل فوٹو: ڈان

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں چھوٹے کاروبار ’اسمال اینڈ میڈیم سائزڈ انٹرپرائزز‘ (ایس ایم ایز) کے فروغ اور اس کی حوصلہ کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 24-2023 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایس ایم ایز معیشت کی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، بدقسمتی سے ہم نے ان کی نشوونما پر اتنی توجہ نہیں دی کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق معیشت میں حصہ ڈال سکیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ مالی سال 2023-24ء میں ایس ایم ایز کے لئے درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے ایس ایم ایز کی حوصلہ افزائی کے لئے ان شعبوں کو قرضے فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدن پر 39فیصد کی بجائے 20فیصد رعایتی ٹیکس کی سہولت اگلے 2مالی سالوں میں یعنی 30جون 2025تک میسر ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم ایز کے ٹیکس مراعات کے نظام کو وسعت دے کر ایس ایم ایز کا تھرےشولڈ 25کروڑ سے بڑھا کر 80کروڑ روپے کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم یوتھ لان پروگرام کے ذریعے چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کے لئے اس مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک اسکیم کے تحت ایس ایم ایز کے قرضوں کو صرف 6 فیصد مارک اپ پر ری فنانس کیا جا سکتا ہے لیکن بینک ایس ایم ایز کی کریڈٹ ہسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے قرضے دینے سے ہچکچاتے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے حکومت پاکستان اس مد میں دئیے گئے قرضوں کا 20فیصد تک رسک اٹھائے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ایز آسان فنانس اسکیم و دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے، ایس ایم ایز کے لئے علیحدہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔

واضح رہے کہ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر(آئی ٹی سی) کی سروے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سندھ اور بلوچستان میں لگ بھگ تمام زرعی مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے (ایم ایس ایم ایز) کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور انہیں اپنا کاروبار بچانے کے لیے حکومت کی فوری مدد کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی ایجنسی انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (آئی ٹی سی) 6 سالہ ’دیہی علاقوں کی ترقی اور استحکام‘ (گراسپ) کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے جس کا مقصد پاکستان میں غربت کا خاتمہ اور سندھ اور بلوچستان کے چھوٹے درجے کے کاروبار کو مضبوط بنانا ہے۔

یہ منصوبہ 2019 میں شروع ہوا تھا جس کی فنڈنگ یورپی یونین کر رہی ہے اور یہ 2024 تک مکمل ہوگا۔

بلوچستان میں اس سروے میں نشاندہی کی گئی کہ 29 فیصد زرعی کاروباروں اور 34 فیصد کسان حکومت سے عارضی سبسڈی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ بحران کے دوران اپنے پے رول کے اخراجات برداشت کرسکیں۔

اسی طرح 23 فیصد زرعی کاروباروں اور 28 فیصد کسانوں نے حکومت سے کام کرنے کا ماحول اور صفائی ستھرائی بہتر بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ ورکرز کو واپس لاسکیں جبکہ 14 اور 18 فیصد سے سیکیورٹی امداد فراہم کرنے پر زور دیا تاکہ زرعی غذا کے شعبے کو اجناس کی گرتی ہوئی قیمتوں پر تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

تقریباً 70فیصد زرعی کاروباری اداروں اور کسانوں نے کہا کہ انہیں معلومات تک رسائی حاصل اور ان کی مدد کے لیے اٹھائے گئے پالیسی اقدامات پر فوائد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے، بالترتیب 29 فیصد اور 23 فیصد نے بتایا کہ سروے میں درج دیگر تجویز کردہ پالیسیوں کے علاوہ حکومت کی طرف سے عارضی اجرت سبسڈی سب سے زیادہ فائدہ مند ہوگی۔

سروے کے بیشتر رسپانڈنٹس (جواب دہندگان) نے کہا کہ انہیں گراسپ کے تحت فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کاروباری اداروں کو بچانے کے لیے حکمت عملی تیار کرسکیں۔

انہوں نے چند دیگر فوری ضروریات بھی بتائیں جن میں ان پٹ کی دستیابی میں اضافہ، منڈی کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور مالی اعانت تک رسائی میں مدد شامل ہے۔

آئی ٹی سی سروے نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 28 فیصد کے زرعی کاروبار اور 29 فیصد کسان حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے کریڈٹ گارنٹی اسکیمیں مہیا کریں۔

سندھ کے نصف دیہی ایم ایس ایم ای چاہتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ ان پٹ جیسے بیج، کھاد اور خوراک کی ادائیگی کو موخر کردے۔

ہر پانچ میں سے ایک کاشت کار اور 18 فیصد زرعی کاروباروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر خوراک کے ذخائر یا فوڈ بینک بنائے تاکہ پیداواری سرگرمی پر تعاون حاصل ہوسکے۔

ایک چوتھائی نے اشیا کی گرتی قیمتوں کے خلاف تحفظ کی شکل میں سیکیورٹی نیٹ کا بھی مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں