قومی اسمبلی: مالی سال 24-2023 کا بجٹ منظور، ٹیکس ہدف 215 ارب روپے بڑھا دیا گیا

اپ ڈیٹ 25 جون 2023
فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب نظر آئی —فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر
فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب نظر آئی —فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر ٹیکس کا ہدف 215 ارب روپے بڑھا کر 94 کھرب 15 روپے کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 24-2023 کے لیے 14 ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

خیال رہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو 94 کھرب 15 ارب تک لے جایا گیا ہے اور مجموعی اخراجات کا ہدف 144 کھرب 80 ارب روپے رکھا گیا ہے، صوبوں کا حصہ 52 کھرب 80 ارب روپے سے بڑھا کر 53 کھرب 90 ارب روپے کردیا گیا ہے۔

آج اتوار کو چھٹی کے روز قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کے لیے اجلاس منعقد کیا گیا، اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس کے دوران فنانس بل میں کُل 9 ترامیم کی گئی ہیں، ان میں سے 8 ترامیم حکومت، ایک اپوزیشن کی جانب سے شامل کی گئی ہے۔

ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا گیا ہے، پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی، علاوہ ازیں این ایف سی کے تحت صوبوں کو 5 ہزار 276 ارب کے بجائے 5 ہزار 390 ارب ملیں گے۔

1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی ترمیم

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی پیمانے پر جانچنے کے لیے بھیجنے کا مطالبہ کیا۔

تاہم عبدالاکبر چترالی کے سوا تمام حکومتی و اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی نے فنانس بل میں سود شامل ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کی مخالفت کر دی۔

دریں اثنا مولانا عبدالاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے 1300 سی سی سے 1600 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔

پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم

دریں اثنا وزیر خزانہ نے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی۔

ترمیم کے تحت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کردی گئی، وفاقی حکومت کو 60 روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔

بل کی شق 3 میں ترمیم

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے فنانس بل کی شق 3 میں ترمیم پیش کی جو کہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کرلی۔

ترمیم کے مطابق 3200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا، متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔

پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم

پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم بھی منظور کرلی گئی۔

پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری سے 2 ہزار روپے ٹیکس ہوگا جبکہ پرانے بلبوں پر یکم جنوری سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

فنانس بل میں مزید ترامیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، دریں اثنا قومی اسمبلی نے فنانس بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔

علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ایوان نے مالی سال 22-2021، مالی سال 23-2022 کی ضمنی گرانٹس کی منظوری بھی دے دی۔

وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے عملے اور اس کے اجلاس پر متعین دیگر محکموں کے اہلکاروں کے لیے 3 ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر اعزازیے کا بھی اعلان کیا۔

اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ورنہ بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا، اسحٰق ڈار

اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے کہا کہ 2 پنشنز پر پابندی لگائی گئی یہ اچھا اقدام ہے، اخباروں میں آیا ہے پنشنرز پر دوسرا کام کرنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک فیکٹری کے لیے معیشت کو کریش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، دنیا چاہتی ہے پاکستان ایگریکلچر ملک ہے یہ تباہ ہو جائے۔

اسحٰق ڈار نے جواب دیا کہ زراعت کے شعبے سے ہمارا بھی اتنا ہی مفاد جڑا ہے جتنا کسی اور کا ہے، میری بھی یہی ترجیح ہے لیکن کبھی ملک کی ترقی کے لیے چند اقدام اٹھانے پڑیں تو یہ بھی ضروری ہے، بجٹ کے بعد ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پنشن اصلاحات جیسی دیگر اصلاحات کی ہمیں اشد ضرورت ہے، اس بجٹ میں ہمارا 800 ارب پنشن پر چلا گیا، یہ ایک خطیر رقم ہے، چند برس قبل یہ اس سے آدھا ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ورنہ ایک وقت آئے گا جب یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو 2 پنشنز میں سے بڑی پنشن کا انتخاب کرنے کا اختیار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت پرانا مسئلہ چل رہا ہے اسے بہت پہلے ٹھیک ہوجانا چاہیے تھا، حکومت نے سرکاری افسران کے ایک سے زائد پنشنز لینے پر پابندی عائد کردی ہے، یہ غریب ملک پر بہت بڑا بوجھ تھا، گریڈ 17 سے نیچے والے ملازمین کے لیے یہ شرط لاگو نہیں، گریڈ 17 سےاوپر والے ملازمین کو ایک پنشن لینا ہوگی۔

وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ اصولی بات ہے کہ آپ کو ایک پنشن ضرور ملنی چاہیے لیکن یہاں مختلف سرکاری عہدوں پر رہنے والے لوگ ایک سے زیادہ پنشنز لیتے رہے ہیں، یہ پنشنز کئی کئی نسلوں تک چلتی رہیں، ملک میں بعض لوگ بیک وقت آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو کی پنشن لیتے رہے۔

خواجہ آصف کی چیئرمین سینیٹ کی مراعات سے متعلق بل کی مخالفت

دریں اثنا وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایوان سے خاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بہت صبر آزما وقت گزارا ہے، آئی ایم ایف والا مرحلہ بھی گزر جائے گا، ایک نئے دور کا آغاز ہو گا جس میں معاشی استحکام واپس آئے گا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ تاثر دیا جارہا ہے ارکان پارلیمنٹ کو خصوصی جہاز پر حج پر لے جایا جا رہا ہے، اس فلائٹ میں عام حاجی بھی ہوں گے، بجٹ کی وجہ سے آخری حج پرواز ارکان پارلیمنٹ کے لیے رکھی گئی، ارکان پارلیمنٹ اپنے خرچ پر حج پر جا رہے ہیں۔

خواجہ آصف نے چیئرمین سینیٹ کی مراعات سے متعلق بل کی مخالفت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ایسی مراعات نہیں دی جا سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی، نہ دفاع کیا جا سکتا ہے، جو بل سینیٹ میں پاس ہوا یہ ایوان اس کی حمایت نہ کرے، اس غریب قوم کے ان حالات میں سینیٹ کا منظور کردہ بل کسی صورت درست نہیں۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ آئینی عہدے کو پروٹوکول کی ضرورت ہے، وزرا کے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں ہوتی ہیں تو لوگ گالیاں دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم سیاسی عہدوں پر نہیں ہوتے تو پولیس پیچھے ہوتی ہے، اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو سیاست چھوڑ دیں اور کوئی اور کام کریں، اگر کسی کی دشمنی ہے تو وہ ذاتی حیثیت میں گارڈز رکھ لے۔

اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب

قومی اسمبلی سے فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب نظر آئی۔

وزیراعظم سمیت اہم پارلیمانی رہنما ایوان سے غیر حاضر رہے، بلاول بھٹو، آصف زرداری، راجا ریاض، اختر مینگل، امیر حیدر ہوتی بھی غیر حاضر رہے۔

ایوان میں حکومتی بینچز پر 62 جبکہ اپوزیشن بینچز پر 2 اراکین موجود نظر آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں