کورکمانڈرز کانفرنس: ’پڑوسی ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں، پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ‘

اپ ڈیٹ 17 جولائ 2023
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی —فوٹو: آئی ایس پی آر
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی —فوٹو: آئی ایس پی آر

پاک فوج نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو پڑوسی ملک میں حاصل پناہ گاہیں اور جدید ہتھیار کی دستیابی پاکستان کی اندرونی سلامتی متاثر کرنے والی بنیادی وجوہات ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 258ویں کور کمانڈرز کانفرنس جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں منعقد ہوئی۔

بیان میں کہا گیا کہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خطرات کے خلاف مادر وطن کے دفاع میں مسلسل اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کرنے والے بہادر سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

کور کمانڈرز کانفرنس کے بارے میں بتایا گیا کہ شرکا کو ملک کی اندرونی سیکیورٹی ماحول کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’اجلاس کے دوران پڑوسی ملک میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے دہشت گردوں کو حاصل پناہ گاہیں اور کارروائیوں کی آزادی اور دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں کی دستیابی کو پاکستان کی سلامتی متاثر کرنے والی بنیادی وجہ قرار دیا گیا‘۔

بیان میں کہا گیا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں فوج کی آپریشنل تیاریوں اور تربیتی پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ’معروضی تربیت ہماری پیشہ ورانہ صلاحیت کا بدستور طرہ امتیاز ہے اور ہمیں اپنی قومی سلامتی کے ہر طرح کے خطرے سے تحفظ کے لیے تیار رہنا چاہیے‘۔

بیان میں بتایا گیا کہ فورم کو حکومت کی معیشت کی بحالی کے منصوبے اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت زراعت کی بحالی، آئی ٹی، کان کنی، منرلز اور دفاعی پیداوار کے شعبے میں فوج کے کردار کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔

بیان کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکا نے معیشت کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان کے اسٹریٹجک اقدامات کے تمام ممکنہ ٹیکنیکل اور انتظامی تعاون کی فراہمی کے ذریعے تعاون کا عزم دہرایا جو پاکستان کے عوام کے فلاح کے لیے ہے۔

اس سے قبل 14 جولائی کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ژوب میں دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کی سی ایم ایچ کوئٹہ میں عیادت کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کے لیے دستیاب مواقع پر تشویش ہے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کو کارروائیوں کے لیے آزادی اور محفوظ مقامات کی دستیابی پر انتہائی تشویش ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ’افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی‘۔

آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اور تشویش ہے، جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’اس طرح کے واقعات ناقابل برداشت ہیں جن پر پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے مؤثر جواب دیا جائے گا‘۔

بعد ازاں 15 جولائی کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 50 سے 60 لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 4 سے 5 دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں، اس کے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں واقع گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9 فوجی جوان شہید اور جوابی کارروائی میں 5 دہشت مارے گئے تھے۔

اسی روز سوئی میں فوجی آپریشنز کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 3 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا جبکہ مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے 2 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں