گھریلو ملازمہ پر ’تشدد‘ میں ملوث جج اور بیوی روپوش ہوگئے، پولیس کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2023
پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر پیچ پر دعویٰ کیا کہ خاتون ملزمہ کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر پیچ پر دعویٰ کیا کہ خاتون ملزمہ کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد میں ملوث جج اور ان کی اہلیہ روپوش ہوگئے ہیں جس کی وجہ کیس کی تحقیقات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس افسران کے مطابق پولیس ٹیموں نے اسلام آباد اور لاہور میں جج کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے تاہم دونوں گھروں پر تالے لگے ہوئے ملے۔

افسران کے مطابق پولیس کے اعلیٰ حکام نے تاحال یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اس کیس کی تفتیش پولیس اسٹیشن کی سطح پر کی جائے یا اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کے تحت اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے ذریعے کرائی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) نے تاحال کیس کی تفصیلات اور زونل پولیس کو دستیاب دستاویزات تفتیشی ونگ کے ساتھ شیئر نہیں کیں، اس لیے تفتیش میں تاخیر کا سامنا ہے۔

ملازمہ کے والد منگا خان کی شکایت اور میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ جس میں گلا گھونٹنے کے نشانات سمیت لڑکی کے جسم پر 15 زخموں کا ذکر ہے، وہ سرگودھا پولیس نے وفاقی پولیس کو فراہم کیا لیکن مشتبہ شخص پر گلا گھونٹنے، تشدد کرنے اور زخمی کرنے سے متعلق دفعات نہیں لگائی گئیں۔

سرگودھا پولیس کی جانب سے متعدد درخواستوں کے بعد کیپٹل پولیس نے ایک کمزور ایف آئی آر درج کی۔

مقدمہ ہمک پولیس اسٹیشن میں لڑکی کے والد کی شکایت پر درج کیا گیا، شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ سے مزدور ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اس نے اپنی بیٹی کو 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک جاننے والے کے ذریعے زرتاج ہاؤسنگ سوسائٹی میں جج کے گھر بھیجا۔

23 جولائی کو وہ اپنی بیوی اور ایک رشتے دار کے ہمراہ بیٹی سے ملنے جج کے گھر گیا تو بیٹی کو زخمی حالت میں ایک کمرے میں روتے ہوئے پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس کے سر پر نظر آنے والے زخموں کے علاوہ چہرے، بازوؤں اور ٹانگوں پر بھی زخم تھے، اس کا دانت ٹوٹا ہوا تھا، ہونٹ اور آنکھوں پر سوجن تھی۔

پوچھنے پر لڑکی نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ جج کی اہلیہ اسے روزانہ ڈنڈے اور چمچے سے مارتی تھی اور رات کا کھانا نہیں دیتی تھی۔

ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ نہ صرف نابالغ کو گھریلو ملازمتوں کے لیے رکھنا جرم ہے بلکہ حقائق چھپانا بھی جرم ہے، لڑکی کو مبینہ طور پر جج کے گھر میں حراست میں رکھا گیا، اس پر تشدد کیا گیا لیکن جج نے اسے ریسکیو کرنے یا اپنی بیوی کے تشدد سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

دوسری جانب پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر پیچ پر دعویٰ کیا کہ خاتون ملزمہ کو گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ کیس کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی، قانون سب کے لیے برابر ہے اس لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

کیس کے متعلقہ افسر اور اسلام پولیس کے ترجمان متعدد مرتبہ کی گئی کوشش کے باوجود معاملے پر رد عمل دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں