’آئین سے متصادم‘، سپریم کورٹ نے ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 11 اگست 2023
درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے نظرثانی کی درخواست کے دائرہ کار کو بڑھانے سے متعلق ’ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023‘ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کرتے ہوئے 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت عظمٰی کی جانب سے سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ، آئین پاکستان سے متصادم ہے، قانونی اسکیم کے مطابق قانون سازی کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔

بعد ازاں 87 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں 33 صفحات پر مشتمل جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

جسٹس منیب اختر نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ نظرثانی درخواست، اپیل نہیں ہے، درحقیقت یہ اس سے بالکل مختلف اور الگ ہے، روایتی حکمت یہ ہی کہتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پھر نظرثانی اور اپیل کے دائرہ اختیار کی تاریخ کا ذکر کیا جس کا آغاز گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے ہوئی، انہوں نے کہا تھا کہ یہ پاکستان اور بھارت کا پہلا آئین بن گیا۔

متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں وہ حکمت تھی جو روایتی بن گئی کہ نظرثانی درخواست، اپیل نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے آئین کے آرٹیکل 184 کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ عدالت کے اپیلٹ دائرہ کار ہائی کورٹس کے فیصلوں، حکمناموں وغیرہ سے متعلق ہے۔

یاد رہے کہ ایکٹ کے خلاف 2 مئی کو تین درخواست گزاروں نے عدالت سے رجوع کیا تھا، فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ کیس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 4 اپریل کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے حوالے سے فیصلہ کرے گا جس میں 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم آئینی دائرہ کار کی بات کر رہے ہیں، نظر ثانی میں کوئی غلطی ہو تو پہلے کا فیصلہ دیکھنا ہوگا، اپیل میں آپ کو پہلے فیصلے میں کوئی غلطی دکھانا ہوتی ہے، آپ کیس کی دوبارہ سماعت کی بات کر رہے ہیں اس کا کوئی تو گراؤنڈ ہوگا۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ ہم آپ کی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 184 (3) کے خلاف ریمڈی ہونی چاہیے، آپ وہ ریمڈی آئینی تقاضوں کے مطابق دیں، ریمڈی دینے کے گراؤنڈز کو واضح کرنا ضروری ہے، عدالت کو نظر آئے کے ناانصافی ہوئی ہے تو 187 کا اختیار استعمال کر لیتی ہے، عدالت کو آرٹیکل 187 کے استعمال کے لیے اعلان نہیں کرنا پڑتا۔

سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر) ایکٹ

یاد رہے کہ مئی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 2023 قانون بنا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3 کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو مذکورہ بل پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔

مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا تھا۔

اس نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت کیے گئے فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی اور فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ اپیل کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں، شق ایک کے تحت ایکٹ ’سپریم کورٹ(ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کہلائے گا، شق دو کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔

شق تین کے مطابق نظر ثانی کی سماعت کرنے والے بنچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہو گی، شق 4 کے مطابق نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔

شق 5 کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پچھلے تمام مقدمات پر ہوگا، شق 6 کے تحت متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا، شق 7 کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو۔

حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بل کا مقصد سپریم کورٹ کو فیصلوں اور احکامات پر نظرثانی کے اختیارات کے استعمال میں سہولت فراہم کرنا ہے، تاہم اپوزیشن نے قانون کو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔

یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کہ نواز شریف آئندہ ماہ پاکستان واپس آئیں گے تاہم انہوں نے ان کی واپسی کی متعین تاریخ نہیں بتائی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں