سابق پی ڈی ایم حکومت 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال 23-2022 میں 7.7 فیصد کا بڑا مالیاتی خسارہ پیچھے چھوڑ کر گئی جو خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 7 فیصد خسارے کے دعووں سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مالیاتی آپریشنز کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ 65.21 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 7.7 فیصد) رہا جب کہ رواں مالی سال 2024 کا بجٹ جون میں منظور کرتے وقت حکومت نے مجموعی مالیاتی خسارہ 59.4 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 7 فیصد) ہونے کا دعویٰ کیا تھا، اس کے برعکس اعداد و شمار کے درمیان تقریباً 580 ارب روپے کا فرق سامنے آیا ہے، دونوں دستاویزات وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔

اسی طرح گزشتہ حکومت نے بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 0.5 فیصد ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جو مالی سال 2023 کے لیے 421 ارب روپے بنتا ہے لیکن تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 0.8 فیصد یا 690 ارب روپے تھا۔

جہاں صوبائی حکومتوں نے مرکز کے ساتھ کیے گئے اپنے عزم کو پورا نہ کر کے خسارے میں حصہ ڈالا، وہیں خود وفاقی حکومت بڑے مالیاتی خسارے کی ذمہ دار رہی۔

وفاق نے مالی سال 2023 کے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے مالی سال 2024 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے 459 ارب روپے صوبوں سے حاصل ہونے والے سرپلس کا تخمینہ لگایا، لیکن صوبوں نے صرف 155 ارب روپے فراہم کیے جس سے تقریباً 304 ارب روپے کا خسارہ ہوا جب کہ تقریباً 385 ارب روپے کا بقیہ خسارہ وفاقی حکومت کی جانب سے تھا۔

اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی حکومت کے آخری مالی سال کے دوران تمام تر ’مالی بے ضابطگیوں اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی‘ کے باوجود خسارہ جی ڈی پی کے 7.9 فیصد یا 52.6 کھرب روپے رہا جو موجودہ خسارہ سے کچھ زیادہ ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کے آخری مالی سال (2022) میں بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 3.1 فیصد یا 20.77 ارب روپے تھا جو نمایاں طور پر کافی زیادہ تھا۔

اس سے ایک سال کی مدت میں قرضوں اور سود کی ادائیگی میں 83 فیصد کا زبردست اضافہ ظاہر ہوا، مالی سال 2022 میں سود سمیت قرض کی ادائیگی 31.8 کھرب روپے یا جی ڈی پی کا 4.8 فیصد رہی جو مالی سال 2023 میں 58.3 کھرب یا 6.9 فیصد تک پہنچ گئی، قرضوں کی یہ صورتحال ریاست کے وجود کو چیلنج کرنے والے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک کے طور پر سامنے آئی ہے۔

ایک سال میں 12 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھتے موجودہ اخراجات میں دفاعی اخراجات کا بھی بڑا حصہ شامل ہے لیکن مہنگائی کی شرح اور جی ڈی پی تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کچھ بھی نہیں، جب کہ مالی سال 2022 میں یہ 2.1 فیصد تھا جو مالی سال 2023 میں 1.9 فیصد رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں