اسٹیٹ بینک کا شفافیت کیلئے ایکسچینج کمپنیوں میں اسٹرکچرل اصلاحات کا فیصلہ

06 ستمبر 2023
اسٹیٹ بینک بینکوں کو ایکسچینج کمپنیاں بنانے کی اجازت دے دی—فائل فوٹو: اے پی پی
اسٹیٹ بینک بینکوں کو ایکسچینج کمپنیاں بنانے کی اجازت دے دی—فائل فوٹو: اے پی پی

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کے شعبے میں عوام کو بہتر خدمات فراہم کرنے، شفافیت اور مسابقتی ماحول کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’بینک دولت پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کے شعبے میں بنیادی اصلاحات متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، ان اصلاحات میں زرمبادلہ کا کاروبار کرنے والے سرفہرست بینک عوام کی جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی ایکسچینج کمپنیاں بنائیں گے‘۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ’موجودہ ایکسچینج کمپنیوں کی مختلف اقسام اور ان کی شاخیں یکجا کرکے انہیں ایکسچینج کمپنیوں کے ایک زمرے میں تبدیل کردیا جائے اور اس کا ایک مقررہ دائرہ کار ہوگا‘۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ’ایکسچینج کمپنیوں کو کم از کم سرمائے کی شرائط 20 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کردی گئی ہے، دوسری کیٹگری کی ایکسچینج کمپنیاں ای سی بی اور ایکسچینج کمپنیوں کی فرنچائز کو ایکسچینج کمپنیوں میں تبدیل ہونے کے لیےپیش کش کی گئی ہے‘۔

اعلامیے کے مطابق فرنچائز کی ایکسچینج کمپنی میں تبدیلی کے لیے ’بی کیٹگری کی ایکسچینج کمپنیاں تین ماہ میں تمام ضوابطی تقاضے پورے کرنے کے بعد ایکسچینج کمپنی کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے، دوسری صورت میں اس کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا‘۔

اسی طرح ’ایکسچینج کمپنیوں کی فرنچائز تین ماہ میں تمام ضوابطی تقاضے پورے کرنے کے بعد کسی دوسری کمپنی میں ضم ہوسکتی ہے یا پھر اپنا کاروبار متعلقہ فرنچائز کو فروخت کرسکتی ہے‘۔

اسٹیٹ بینک نے اعلامیے میں کہا ہے کہ ’مذکورہ مقاصد کے لیے کیٹگری بی کی ایکسچینج کمپنیاں اور فرنچائز تبدیلی کا اپنا منصوبہ جمع کرائیں گی اور ایک ماہ میں اسٹیٹ بینک سے اجازت نامہ (این او سی) حاصل کریں گی‘۔

مرکزی بینک نے کہا کہ ان اصلاحات کا مقصد عوام کو خدمات کی بہتر فراہمی اور ایکسچینج کمپنیوں کے شعبے میں مسابقت اور شفافیت لانا ہے، اس طرح اس شعبے میں گورننس، داخلی جانچ پڑتال اور ضابطوں کی تعمیل کی روایت مضبوط ہونے کی امید ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ اعلان چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی جانب سے تاجروں کو ایکسچینج ریٹ میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کے بعد کیا گیا ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کور ہیڈکوارٹرز لاہور میں تاجروں سےگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ منی ایکسچینج کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا، ڈالر کے تبادلے اور انٹربینک ریٹ میں شفافیت کو فروغ دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلرز کے خلاف کارروائیوں کا بھی اعلان کردیا گیا تھا۔

اسٹیٹ بینک کے اقدام کو عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی شرط کی تکمیل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جس میں کرنسی کی اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں فرق کم کرنے کا کہا گیا ہے۔

آئی ایم ایف نے رواں برس جولائی میں 3 ارب ڈالر قرض کے معاہدے میں حکام سے کہا تھا کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کا فرق مخصوص پانچں روز میں 1.25 فیصد تک محدود ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ رواں برس پاکستانی روپے کی قدر میں بدترین تنزلی ہوئی اور 15 اگست کے بعد نگران حکومت کے دور میں اب تک روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی آئی ہے۔

ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز نے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بلیک مارکیٹ اور ملک کے بینکنگ اور کرنسی کے نظام میں آئی ایم ایف کی مداخلت قرار دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کی رائے

اسٹیٹ بینک کے فیصلے کے بعد سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ایکگزیکٹیو ڈائریکٹر ساجد امین جاوید نے مزید وضاحت کا مطالبہ کیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو فارن ایکسچینج کمپنیاں کھولنے کا لائسنس دیا ہے، ممالک ایسا کرتے ہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک قانونی فارن ایکسچینج کی ضرورت اور کمپنیوں کے واضح مینڈیٹ کی وضاحت کیسے کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے مقاصد اور اصلاحات کے اثر کا اشارہ ملے گا، واضح اور تحریری وضاحت کی ضرورت ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبرزیدی نے ایکسچینج کمپنیوں کی ریگیولرائزیشن کو بہترین اقدام قرار دیا۔

شبر زیدی نے کہا کہ اس جانور کو بینکوں میں ضم ہونا پڑے گا، نہ ہونے سے تاخیر بہتر ہے، حکومت کو اب ڈالر کی منتقلی روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی منتقلی صرف پاسپورٹ پر سفر یا بینک اکاؤنٹ کی صورت میں اجازت ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ غیرملکی کرنسی رکھنے والے کو جیل ہونی چاہیے۔

ظفر پراچہ کا خط

دوسری جانب ایکسچینج کمپنیر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفرپراچہ نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے مرکزی بینک کے غیرملکی ایکسچینج کے ڈائریکٹر کو خط لکھا ہے اور نشان دہی کی ہے کہ گوجرانولہ میں ایکسچینج کمپنی کی برانچ میں پولیس اہلکار کسی اتھارٹی کے حکم کے بغیر پہنچ گئے تھے۔

انہوں نے خط میں لکھا کہ یہ علم میں لایا جاتا ہے کہ پولیس اہلکار گوجرانوالہ میں ایکسچینج کمپنی کی برانچ میں آئے اور کہا کہ ایس پی گوجرانوالہ اسپیشل برانچ ہاشم گجر کی ہدایت پر وہاں آئے ہیں۔

ظفر پراچہ نے لکھا کہ میں پورا دن ڈالر کی فروخت اور صارفین کے ساتھ معاملات پر نظررکھنے میں فرنچائز میں موجود ہوتا ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں