جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں پرویز الہٰی کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2023
پرویز الہٰی کی درخواستِ ضمانت پر اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سماعت کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
پرویز الہٰی کی درخواستِ ضمانت پر اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سماعت کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلکس توڑ پھوڑ کیس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور صدر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پرویز الہٰی کی ضمانت منظور کر لی۔

جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں پرویز الہٰی کی درخواستِ ضمانت پر اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سماعت کی، صدر پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بابر اعوان اور سردار عبدالرازق عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر راجا نوید نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریکارڈ تھوڑی دیر میں پہنچ جائے گا، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، عدالت شروع ہو گئی اور ریکارڈ نہیں پہنچا، آپ دلائل کا آغاز کریں۔

بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الہٰی ایف آئی آر میں نامزد نہیں، 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پرویز الہٰی سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی۔

بابر اعوان نے پرویز الہٰی کی ضمانت منظور کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ صدر پی ٹی آئی ایک مشہور سیاست دان ہیں اور ان کی گرفتاری شک کی بنیاد پر ڈالی گئی، ایف آئی آر میں شریک تمام ملزمان کی ضمانت دے دی گئی ہے۔

ان کے دلائل مکمل ہونے پر سرادر عبدالرازق نے دلائل کا آغاز کر دیا اور مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں فراہم کیں، انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے درج ہونے کے 6 ماہ بعد پرویز الہیٰ کا نام ڈالا گیا۔

انہوں نے استدعا کی کہ اس کیس میں نامزد ملزمان اسد عمر، چیئرمین پی ٹی آئی سمیت دیگر تمام کی ضمانتیں منظور کی جا چکی ہیں، پرویز الہٰی کی ضمانت بھی منظور کی جائے۔

پراسیکیوشن کی جانب سے پرویز الہٰی کی ضمانت کی مخالفت کی گئی، پراسیکیوٹر راجا نوید نے کہا کہ ایف آئی آر جن دفعات کے تحت درج کی گئی وہ ناقابل ضمانت ہیں، مخبر کی اطلاع پر پرویز الہٰی کو گرفتار کیا گیا۔

دریں اثنا عدالت نے پرویز الہٰی کی 20 ہزار کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریماکس دیے کہ ایف آئی آر میں پرویز الہٰی نامزد نہیں ہیں، 3 روزہ جسمانی ریمانڈ کے دوران بھی کوئی چیز برآمد نہیں کی گئی۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی تھی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

8 ستمبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں