ماہرین صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں ہر سال تقریباً 3 ہزار بچوں میں خون کے کینسر کی تشخیص ہورہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلڈ کینسر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کراچی میں منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر سال تقریباً 3 ہزار بچوں میں خون کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔

تقریب کا اہتمام ہمل فارماسیوٹیکلز اور کراچی پریس کلب نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ مکمل علاج کے لیے بیماری کی جلد تشخیص بہت ضروری ہے اور ملک میں ایسی سہولیات تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں مریضوں کو مکمل علاج فراہم کیا جائے کیونکہ مریضوں کو ادویات کے سنگین مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں میں خون کا کینسر سب سے عام بیماری ہے اور پاکستان میں اس مرض کے بارے میں درست اعداد و شمارموجود نہیں ہیں کیونکہ ملک میں مقامی سطح پر کینسر رجسٹری قائم نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان میں بھی خون کے کینسر کے پھیلاؤ میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری جانب آبادی میں اضافہ، بیماری کی جلد تشخیص اور علاج کی سہولیات تک بہتر رسائی نے آج کل کینسر کے کیسز کی زیادہ تعداد میں رپورٹ ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نورین مشتاق نے کہا کہ ملک کے بڑے شہروں میں واقع 13 علاج کے مراکز کے ادارہ جاتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر سال 2 ہزار سے 3 ہزار بچے بلڈ کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اعدادوشمار ملک کی واضح صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ بالغ لوگوں اور بچوں میں خون کے کینسر کی سب سے عام بیماری ایکیوٹ مائیلائیڈ لیوکیمیا اور ایکیوٹ لیمفائیڈ لیوکیمیا تھیں۔

“آغاز خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سلمان این عادل نے نشاندہی کی کہ خون کے کینسر کی صورت میں ادویات کی دستیابی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اصل چیلنج صحت کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے دوران ہوتا ہے جو علاج کے دوران اور بعد میں پیدا ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مریضوں کو ادویات کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے معیاری نرسنگ کیئر سمیت طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کینسر کی زیادہ تر اقسام کا تعلق ماحولیاتی عوامل ہیں، انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بلڈ کینسر کی وجوہات نقصان دہ کیمیکلز، سگریٹ نوشی کا استعمال ہوسکتا ہے۔

ماہرین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک معاشی بدحالی سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے بنیادی اشیاء کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ خوش قسمتی سے اب ملک میں کینسر کی دوائیں تیار کی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں کینسر کے علاج کے بارے میں آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان شیخ نے کہا کہ پبلک سیکٹر میں مفت مکمل طبی نگہداشت صرف ضلع خیرپور کے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں دستیاب ہے۔

ماہرین نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ جسم پر سوجن کو نظر انداز نہ کریں جو بار بار انفیکشن، مسلسل بخار اور کمزوری، وزن میں کمی یا جسم میں خراش کا سبب بن سکتے ہیں اور طبعیت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹروں سے رجوع کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں