مالی مسائل سے دوچار پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے بینکوں سے17 ارب روپے کا قرض حاصل کرنے کے بعد فلائٹ آپریشنز بحال کرنے کا اعلان کردیا۔

خیال رہے کہ یہ پیشرفت اس وقت ہوئی ہے جب پی آئی اے نے مالی بحران کے پیش نظر مبینہ طور پر متعدد طیاروں کو گراؤنڈ کردیا تھا جہاں ان طیاروں کو اگلے چند مہینوں تک اپنے آپریشنز کو برقرار رکھنے کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا تھا۔

کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی آئی اے کی جانب سے 15 ستمبر تک آپریشن بند کر دیا جائے گا، جس پر ایئر لائن کی انتظامیہ اور سینیٹ میں قانون سازوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔

وزارت ہوا بازی نے 23 ارب روپے کی نقد رقم طلب کرتے ہوئے حکومت کو مطلع کیا تھا کہ بوئنگ اور ایئربس ستمبر کے وسط تک اسپیئر پارٹس کی سپلائی بند کرنے جا رہے ہیں۔

رواں ہفتے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے آپریشن کی بندش کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فلائٹ آپریشن جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایئر لائن انتہائی ضروری مقامی اور بین الاقوامی ادائیگیاں بھی کر رہی ہے۔

ایک دن قبل ایئر لائن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ 17 ارب روپے کا قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، جس کے بعد ملازمین کی تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں اور فلائٹ آپریشن بخوبی چل رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ پی آئی اے فنڈز جاری کر رہی ہے اور اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے اور فیول کمپنیوں کو بھی ادائیگیاں کی جائیں گی جبکہ فوری مرمت کے لیے طیاروں کے اسپیئر پارٹس بھی خریدے جائیں گے۔

آج جاری ہونے والے بیان میں ترجمان نے کہا کہ پی آئی اے کے فلائٹ آپریشنز میں بہتری آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک بھر کے ہوائی اڈوں سے 77 پروازیں چلائی جائیں گی، ان 77 پروازوں میں سے 25 مقامی طور پر چلائی جائیں گی جبکہ باقی بین الاقوامی پروازیں ہوں گی۔

انکا مزید کہنا تھا کہ آج شیڈول کے مطابق چلنے والی پی آئی اے کی پروازوں کا تناسب 87 فیصد ہے۔

بدقسمتی سے پی آئی اے ملک کی آبادی کے صرف محدود حصے کو سروسز فراہم کر رہا ہے، 3 فیصد سے بھی کم شہری پی آئی اے کے ذریعے سفر کرتے ہیں، جس کے لیے بڑے پیمانے پر سرکاری فنڈز استعمال ہوتے ہیں۔

پی آئی اے کا معاملہ تنقید کا نشانہ بننے اور خسارے میں جانے والی توانائی کمپنیوں کے بالکل برعکس ہے جو تقریباً 80 فیصد آبادی کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔

پی آئی اے کی 92 فیصد ملکیت حکومتِ پاکستان کے پاس ہے، 1990 کی دہائی کے آخر سے پی آئی اے کو بڑھتے ہوئے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ ابھرتی ہوئی علاقائی ایئرلائنز سے مسابقت، کاروباری صلاحیت کی کمی، بیرونی اثرات، اندرونی بدانتظامی اور طیاروں کی تعداد بڑھانے کے لیے درکار فنڈنگ کی کمی ہے۔

مالی نقصانات سے نمٹنے کے لیے پی آئی اے نے کافی قرضہ لیا جو اب ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے، 31 دسمبر 2022 تک پی آئی اے کا قرض اور واجبات 743 ارب روپے تھے، جو اس کے اثاثوں کی کُل مالیت سے 5 گنا زیادہ ہے، وزارت ہوا بازی کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال (23-2022) میں اس کا کُل 86 ارب 50 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا، جن میں سے 11 ارب روپے آپریشنل نقصانات کی مد میں تھے۔

وزارت ہوا بازی نے کہا تھا کہ اگر صورتحال برقرار رہی تو پی آئی اے کے قرضے اور واجبات ایک ہزار 977 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے اور 2030 تک اس کا سالانہ خسارہ 259 ارب روپے ہو جائے گا۔

علاوہ ازیں پی آئی اے کے موجودہ قرضوں کے واجبات میں سے 383 ارب روپے حکومت پاکستان کی جانب سے ’انڈر رائٹ‘ کیے گئے ہیں اور 92 فیصد مالک ہونے کے ناطے بقایا ادائیگیوں کی ذمہ داری بھی بالآخر حکومت پر ہی لاگو ہوتی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پی آئی اے کو مستحکم بنانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں اور اس سلسلے میں 2 بنیادی طریقوں کو اپنانے کی کوشش کی گئی، پہلی حکمت عملی بنیادی طور پر لاگت میں کمی، اندرونی انتظام کو بہتر بنانے اور حکومت کی طرف سے سرمایہ کاری کے ساتھ طیاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے پر مرکوز تھیں، تاہم اس نوعیت کی کئی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

دوسری حکمت عملی پی آئی اے کی مالیاتی، قانونی، آپریشنل، تجارتی اور انسانی وسائل کی ری اسٹرکچرنگ پر مرکوز ہے تاکہ اس کی بیلنس شیٹ کے مسائل سے نمٹا جا سکے، اس کا مقصد سرکاری حصص کی فروخت کے ذریعے نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔

اس حکمت عملی کی نشاندہی سب سے پہلے دبئی اسلامک بینک کنسورشیم کی 2017 کی رپورٹ میں کی گئی تھی جس میں نجکاری کمیشن نے کام کیا تھا اور بعد میں 2020 میں پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کے منصوبے پر ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ری اسٹرکچرنگ پلان کی حکومت کی جانب سے منظوری ملنا ابھی باقی ہے، ایوی ایشن ڈویژن نے گزشتہ ہفتے حکومت سے شرح سود کی ادائیگی کے لیے 23 ارب روپے کے فنڈز مانگے تھے اور ایف بی آر کو ایک ارب 30 کروڑ ارب روپے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگی معطل اور تقریباً 8 ماہ میں ری اسٹرکچرنگ مکمل ہونے تک قرضوں اور مارک اپ کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے سلسلہ وار متعدد اجلاسوں میں یہ تجاویز نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو متاثر کرنے میں ناکام رہیں۔

بعد ازاں دونوں کمیٹیوں نے پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کے منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ پینل بنانے کا فیصلہ کیا اور وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے کہا کہ ری اسٹرکچرنگ کے ٹھوس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے بعد معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پی آئی اےکی مدد کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں