کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس کو شہر کی مصروف سڑک شاہراہِ فیصل سے جوڑنے والی چڑھائی پر واقع ایک گلی میں سعید رضوی کا اسٹوڈیو موجود ہے۔ دن کے وقت تو یہ ایک پرانا اور معمولی سا اسٹوڈیو لگتا ہے البتہ رات میں یہ جگہ دیکھنے والوں پر خوف طاری کردیتی ہے۔

یہ ایک بے نام تین منزلہ عمارت جس کی تنگ راہداریاں، تاریک دروازوں اور کمروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن فینٹیسی، سائنس فکشن اور ہارر کے مرکز کے طور پر اس عمارت کی حیثیت نمایاں ہے۔

کچھ سال پہلے تک یہاں پروڈکشن کا کام جاری تھا۔ اس اسٹوڈیو میں سعید رضوی کے 35 ملی میٹرز کے پازیٹیو (جنہیں نیگیٹیو ریلز سے پرنٹ کیا گیا ہے) موجود ہیں۔ 1999ء میں جلد بازی میں ریلیز ہونے والی ان کی آخری فلم ’دل بھی تیرا ہم بھی تیرے‘ میں فیصل قریشی، سعود، میرا اور صاحبہ نے اداکاری کی تھی لیکن متنازع مناظر کی بنیاد پر ریلیز کے ایک ہفتے بعد ہی اس فلم پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہاں اس کی ریل بھی ٹیپ اسپلائسر (سیلولائڈ یا پالی ایسٹر پرنٹس کے لیے ایڈیٹنگ اور پری ویو کی مشین) کے ساتھ ریوائنڈر میں موجود تھی۔

اسٹوڈیو کے داخلی دروازے کے پاس موجود بلیو روم جوکہ ایڈیٹنگ روم کا بھی کام سرانجام دیتا ہے۔ وہیں سعید رضوی بیٹھے ملے۔ وہ ایک غیر روایتی فلم ساز اور اشتہار ساز ہیں۔ رضوی پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین بھی ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ فیچر فلم ’دل بھی تیرا ہم بھی تیرے‘ ان کی آخری فلم تھی لیکن اب وہ اپنی نئی فلم پر کام کررہے ہیں۔

ان کی نئی فلم کا نام ’چیک پوسٹ‘ ہے جوکہ ایک ہارر سروائیول تھریلر فلم ہوگی۔ اگرچہ اس فلم کا اسکرین پلے مکمل اور شوٹنگ کے لیے تیار ہے لیکن شوٹنگ میں تاخیر ہوسکتی ہے کیونکہ اس وقت سعید رضوی کی ترجیح اپنی پرانی فلموں کو ری ماسٹر کرنا اور انہیں محفوظ کرنا ہے۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق رہا تو وہ ان فلموں کو ایک بار پھر سنیما گھروں کی زینت بنانا چاہتے ہیں۔

سعید رضوی افسوس کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’مجھے سب سے زیادہ افسوس اسی بات کا ہے کہ اپنی فلموں کے زیادہ تر نیگیٹیوز مجھ سے کھو گئے ہیں‘۔ البتہ ان کی فلموں کی 35 ملی میٹر کی ریلوں کو محفوظ کرنے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں لیکن ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب یا بد رنگ ہو چکی ہیں جبکہ کچھ ریلز پر موجود سوراخ تک خراب ہوچکے ہیں (نیگیٹو ریلز میں اوپر اور نیچے موجود سوراخ نیگیٹیو کو کیمرا یا پروجیکٹر پر چلانے میں مدد دیتے ہیں)۔

فلم ساز سعید رضوی کی نوجوانی کی ایک یادگار تصویر—فوٹو: لکھاری
فلم ساز سعید رضوی کی نوجوانی کی ایک یادگار تصویر—فوٹو: لکھاری

وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی ریلز کو محفوظ کرنے کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ہمارے پاس جو کاپیاں ہیں وہ ٹیلی سنڈ ویڈیو کیسٹ ٹرانسفرز کی ہیں جنہیں وی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز میں منتقل کردیا گیا ہے۔ ان میں عام موبائل فون اسکرین کی مقابلے میں صرف ایک چوتھائی ریزولیوشن ہوتی ہے۔

اکثر ویڈیوز پر کراچی میں ماضی کے پائریٹڈ فلموں کے مرکز رینبو سینٹر کی دکانوں کے واٹر مارک ہیں جبکہ اب یہ دکانیں ہی موجود نہیں ہیں۔ ویسے بھی انٹرنیٹ کے اس دور میں زیادہ تر دکانیں ڈرائی فروٹ فروخت کرنے والی دکانوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔

سعید رضوی بتاتے ہیں کہ ان ویڈیوز میں اگر تصویر خراب تھی تو آواز بدتر تھی۔ تمام آوازوں کو ایک ہی مونوٹریک میں جمع کردیا گیا تھا۔

سعید رضوی امریکا منتقل ہوچکے ہیں۔ وہ اب برسوں سے اپنی پرانی فلموں کی ریلز کے معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو ان کی فلمیں واقعی ایسی ہیں کہ ان کے معیار کو بہتر کرکے انہیں دوبارہ سنیما گھروں میں چلایا جائے۔

سعید رضوی فلم ساز رفیق رضوی کے بیٹے ہیں، دورانِ تعلیم ہی ان کے والد ان کے شوق کو پرکھ چکے تھے۔ سعید رضوی نے اسٹوڈیو سے سینیماٹوگرافی (جوکہ شاید فلم سازی میں ان کا پسندیدہ حصہ ہے) کا فن سیکھا۔ سالوں بعد 1973ء میں انہوں نے اپنا فلم بینر ’نوویٹاز‘ قائم کیا اور اشتہارات کی فلم سازی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

جن لوگوں کو 1970ء اور 1990ء کی دہائی کا پی ٹی وی یاد ہے ان کے لیے سعید رضوی کے بنائے ہوئے اشتہارات یادگار ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے اشتہارات میں شامل گانے لوگوں کو زبانی یاد ہوا کرتے تھے۔ ان اشتہارات میں ریڈ اینڈ وائٹ سیگریٹ (اس وقت ٹی وی پر تمباکو کے اشتہارات نشر کرنے کی اجازت تھی)، یاماہا موٹر سائیکلز (گلوکار احمد رشدی کی آواز میں ’یہ یاماہا‘ نامی مشہور گانا)، ’ڈبل ایکشن‘ برائٹ، 1970ء سے 1990ء کی دہائی تک بننے والے روح افزا کے تمام اشتہارات، چیری بلاسم پالش کا اشتہار، جی ایف سی فینز، مے فیئر ببل گم، اور مشہورِ زمانہ اشتہار ’میری مٹھی میں بند ہے کیا، ناز پان مصالحہ‘ شامل ہیں۔

1980ء کی دہائی کے اواخر میں کسی وقت، غیر ملکی فلم سازوں سے متاثر ہوکر انہوں نے سعدی ٹاؤن کے نام سے ایک ریئل اسٹیٹ پروجیکٹ کے لیے اشتہار بنایا تھا جس میں ایک اڑن طشتری دکھائی گئی تھی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمیشہ سے بین الاقوامی سنیما سے متاثر تھے اور وہ ان کی تکنیکوں کو اختیار کرتے تھے۔

یہی تجربہ تھا جس کی بنیاد پر سعید رضوی نے 1989ء کی بلاک بسٹر فلم ’شانی‘ بنائی۔ اس فلم میں بابرہ شریف اور شیری ملک نے مرکزی کردار نبھایا۔ یہ فلم ایک ایسی خلائی مخلوق کے بارے میں بنائی گئی تھی جو ایک مردہ آدمی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ تصور اس وقت تک یا اس کے بعد کی روایتی پاکستانی فلم انڈسٹری کے برعکس تھا۔ اس فلم میں کوئی گانا نہیں تھا اور زیادہ تر بصری اثرات شامل کیے گئے تھے۔ سعید رضوی جوکہ سالوں سے اس پر کام کررہے تھے انہوں نے اس فلم کے بصری اثرات خود ترتیب دیے تھے۔

فلم شانی میں غیرانسانی مخلوق کو دکھایا گیا تھا—تصویر: یوٹیوب
فلم شانی میں غیرانسانی مخلوق کو دکھایا گیا تھا—تصویر: یوٹیوب

وہ کہتے ہیں کہ اس غیر ملکی نقطہ نظر نے مقامی جمالیات کو تبدیل نہیں کیا۔ ان کے مطابق فلم شانی میں انسانی جذبات، خاندان اور رشتوں سے محبت کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ یہی سب فلم سرکٹا انسان (1994ء) کا بھی حصہ تھا۔ تکنیکی طور پر یہ ان کی تیسری فلم تھی لیکن باقاعدہ طور پر ریلیز ہونے والی یہ ان کی دوسری فلم تھی۔

سعید رضوی بتاتے ہیں کہ ’میں نے سرکٹا انسان سے پہلے ’طلسمی جزیرہ‘ نامی فلم شروع کی تھی۔ یہ اس وقت کے سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کا واحد تعاون تھا۔ جب سوویت یونین ٹوٹی تو طلسمی جزیرہ پر کام بھی بند ہوگیا۔ ہمیں پروڈکشن روکنا پڑی کیونکہ اس وقت فلم کو مکمل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا‘۔

سعید رضوی نے طلسمی جزیرہ کے یوں ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل اسکرپٹ غیر معمولی تھی۔ لیکن پھر ’کہانی اور پروڈکشن پر سمجھوتہ کرنا پڑا اور جب ہم نے فلم ختم کرنے کی کوشش کی تو ہمیں وہ اداکار نہیں مل سکے۔ سرکاری تعاون ختم ہو چکا تھا اس لیے مجھے اپنے وسائل سے یہ کام کرنا پڑا‘۔

امریکا میں رہائش کے دوران وہ اینی میٹڈ لاشوں کے تصور سے متاثر ہوئے تھے۔ میری شیلی کی فلم فرینکنسٹائن اور ایک یونیورسٹی کے لیکچر سے متاثر ہوکر انہوں نے فلم سرکٹا انسان بنائی جس میں بابرہ شریف، غلام محی الدین اور اظہار قاضی کو کاسٹ کیا گیا جبکہ مرحوم محمد قوی خان نے ایک جنونی سائنسدان کا کردار ادا کیا۔

غیر متوقع طور پر یہ فلم سائنس فکشن اور ہارر کا دلچسپ امتزاج تھی، البتہ یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے ایک ہارر فلم کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے حال ہی میں اس فلم کو ایک بار پھر سنیما گھروں میں ریلیز کیا گیا ہے۔

سعید رضوی کہتے ہیں کہ سرکٹا انسان کی بنیادی کہانی اچھائی اور برائی کے گرد گھومتی ہے۔ اس فلم میں ہیرو اپنی ذات سے لڑ رہا ہوتا ہے اور وہ خود پر بری قوتوں کو حاوی ہونے نہیں دے سکتا تھا۔

سعید رضوی بتاتے ہیں کہ وہ خود کو دہرانا نہیں چاہتے تھے اور فلم شانی سے کچھ مختلف کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے 1989ء سے 1999ء کے درمیان جو 4 فلمیں بنائیں ان کے تصورات مختلف تھے۔ ان کی تینوں غیر روایتی فلمیں بلاک بسٹر تھیں (ان کے مطابق اگر دل بھی تیرا پر سنیما گھروں سے نہ اتاری جاتی تو وہ بھی بلاک بسٹر ہوتی)۔

سعید رضوی کی فلمیں غیر روایتی چیزوں کا مجموعہ ہیں۔ فلم سرکٹا انسان کے گانے ’دم دما دم‘ میں بابرہ شریف اور غلام محی الدین کے کردار پنک پینتھر اور ٹین ایج میوٹینٹ ننجا ٹرٹلز کے ساتھ اچھلتے کودتے دکھائے گئے ہیں۔ سعید رضوی بتاتے ہیں کہ اس گانے کے پیچھے مہینوں کی محنت ہے کیونکہ انہیں ڈرائنگ سے لے کر اِن بِٹوین (فریمز کے درمیان اینیمیشن ٹائمنگ کے لیے ایک تکنیکی اصطلاح) تک، اینیمیشن کے ہر پہلو کی نگرانی کرنی پڑی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس گانے کا تصور میری پوپنز کے گانے Supercalifragilisticexpialidocious سے متاثر تھا جس میں انسانی اداکاروں اور اینی میٹڈ کرداروں کو ایک ساتھ دکھایا جاتا ہے۔

سعید رضوی کا کہنا ہے کہ سرکٹا انسان کو ری ماسٹر کرنے کے لیے امریکا میں مختلف سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے 4 مہینے کا وقت لگا۔ فلم پرنٹ کو معمولی اصلاحات کے ساتھ (اصل 35 ملی میٹر اسٹاک میں معمولی اسکریچ دیکھ سکتے ہیں) 6k ریزولیوشن پر اسکین کیا گیا اور اسٹاک شاٹس کا معمولی اضافہ کیا گیا جوکہ ٹریلر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

تاہم فلم میں آنے والی سب سے اہم بہتری اس کی آواز ہے۔ سعید رضوی کا کہنا ہے کہ سنگل بوگڈ مونو ٹریک کو 5.1 ڈیجیٹل ڈولبی چینلز کو الگ کرنے کے لیے اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ صاف آواز فلم میں نئی روح پھونک دیتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سنیما کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے بجائے حکومت کو پہل کرنی چاہیے تھی کیونکہ یہ کام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فلموں کو ان کی اصل حالت میں محفوظ نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے یہ ورثہ کھوگیا ہے۔

سعید رضوی کا مؤقف تھا کہ ’بھارتی حکومت نے تقسیمِ ہند کے ایک سال بعد ہی فلم ڈویژن بنا دیا تھا۔ ہمیں سنیما کی طاقت کا اندازہ لگانے میں 76 سال لگ گئے ہیں‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’سنیما ایک متنوع اور حوصلہ افزا قسم کا آرٹ ہے۔ سنیما متعدد فنون کا مجموعہ ہے۔ آپ کو یہاں گلوکار، موسیقار، لکھاری، اداکار، فوٹوگرافرز، تکنیکی ماہرین سب ملیں گے۔ لیکن ہم کچھ نہیں کرتے! ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں 150 سے بھی کم اسکرینز موجود ہیں جبکہ ان کی نگرانی 3 سینسر بورڈز کرتے ہیں‘۔

سرکٹا انسان کی صورت میں سعید رضوی کا یہ پہلا قدم، شاید متعلقہ حکام کی نظروں میں آجائے اور ان کی دیگر فلمیں جن میں سے دو تو فلموں کی ثقافت اور ورثے سے متعلق ہیں، کو پاکستانی حکومت کی طرف سے ری ماسٹر کرکے فخریہ انداز میں ان کی دوبارہ نمائش کی جاسکے۔

یہ شاید ایک خام خیالی لگے لیکن سعید رضوی کی فلمیں بننے سے پہلے بھی سب کو ان کی خام خیالی ہی لگ رہی تھیں۔

فلم سرکٹا انسان کا ری ماسٹر ورژن رواں ماہ 15 ستمبر کو سینما گھروں کی زینت بنا۔


یہ مضمون 17 ستمبر 2023ء کو ڈان آئیکون میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں