پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، وزارت امور خارجہ اور داخلہ کی مخالفت کے باوجود سینیٹ میں ریپ کے ملزموں کو سرعام پھانسی دینے کے لیے بل متعدد ترامیم کے ساتھ اکثریتی بنیاد پر منظور کر لیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی طرف سے تجویز کیے گئے ترمیمی بل میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 375، 375اے اور 376 سمیت کرمنل پروسیجر کوڈ کے شیڈول 2 میں ترامیم کی گئی ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس کی صدارت سینیٹر محسن عزیز نے کی جس میں سیکشن ڈی حذف کرکے ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کی ترامیم پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

خیال رہے کہ ستمبر 2020 میں لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے سرعام پھانسی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ناقص فیصلوں کی وجہ سے عمر قید کی سزا ترجیح دینے پر زور دیا۔

شیری رحمٰن نے زور دیا کہ مہذب معاشروں میں پھانسی بطور سزا ختم کردی گئی ہے۔

شیری رحمٰن نے جنرل ضیاالحق کی آمریت کے دوران سزائے موت کا حوالہ دیتے ہوئے مجوزہ ترامیم کی تاثیر اور اخلاقی اثرات پر بھی سوال اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ سرعام پھانسیوں سے جرائم کم نہیں ہوں گے بلکہ خاص طور پر پسماندہ طبقوں میں سماجی بربریت میں اضافہ ہوگا۔

سینیٹ کمیٹی نے سینیٹر ممتاز زہری کی طرف سے پیش کیا گیا فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2023 بھی منظور کیا جس میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ذریعے ریپ کے شکار افراد کے مناسب علاج اور طبی معائنے کی رپورٹس پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں سینیٹ کمیٹی نے نجی جیلوں کے مسئلے پر فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2023 منظور کیا جو کہ سینیٹر مشتاق احمد اور ثمینہ ممتاز زہری نے نجی رہائش گاہوں کے اندر جھوٹی قید روکنے کے لیے پیش کیا تھا۔

اجلاس کے دوران دیگر بلز پر بھی بات کی گئی جن میں سے ایک کو عارضی طور پر مسترد کیا گیا جبکہ ایک اور بل بھی خارج کیا گیا۔

کمیٹی نے سی ڈی اے کے نمائندوں کے تعاون سے بارش کا پانی موثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ’شہری علاقوں میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کی سہولت‘ کا بل 2023 بھی پاس کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے 15 ماہ سے گمشدہ بل پر تشویش کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام سے اس پر تفصیلی رپورٹ طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔

اجلاس میں متعدد سینیٹرز بشمول سیف اللہ ابڑو، ثمینہ ممتاز زہری، شیری رحمٰن، سینیٹر مشتاق احمد اور پلواشہ محمد زئی خان سمیت حکومتی نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

سندھ چائلڈ لیبر قوانین میں ترامیم

علاوہ ازیں حکام نے سینیٹ کی کمیٹی کو بریفنگ دی جس میں بچوں کی گھروں میں ملازمت کی حوصلہ شکنی کے لیے سندھ چائلڈ پروبیشن ایمپلائمنٹ ایکٹ میں ترامیم کا مطالبہ کیا گیا۔

سینیٹر ولید اقبال کی سربراہی میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے سندھ کے شہر رانی پور میں 9 سالہ گھریلو ملازمہ کی افسوس ناک ہلاکت پر بھی بحث کی، 9 سالہ ملازمہ کو گھر میں مبینہ طور پر ریپ کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بریفنگ کے دوران سیکریٹری انسانی حقوق نے بتایا کہ یہ واقعہ 16 اگست 2023 کو پیش آیا تھا اور ملزمان کو اسی روز گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے سندھ چائلڈ پروہیبیشن ایمپلائمنٹ ایکٹ میں ترمیم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بچوں کی گھریلو مزدوری روکنے کے لیے دفعات کا فقدان ہے۔

انہوں نے بچوں کے گھریلو استحصال کی مؤثر طریقے سے نگرانی کے لیے مکینزم کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ڈی این اے کے نمونوں کے بارے میں خدشات کے حوالے سے حکام نے ان الزامات کی تردید کی اور وضاحت کی کہ نمونے پہلے جامشورو اور کراچی انسٹی ٹیوٹ کو بھیجے گئے تھے۔

محدود ٹیکنالوجی اور کیس کی حساس نوعیت کی وجہ سے نمونے لاہور بھیجے گئے تھے اور ڈی این اے رپورٹ آئندہ چند روز میں موصول ہوجائے گی۔

تاہم کمیٹی نے ڈی این اے رپورٹ میں تاخیر پر سندھ پولیس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے بتایا کہ انہوں نے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی سے رابطہ کیا تھا کہ اسی مقام پر ایک اور نابالغ کو یرغمال بنانے کی افواہیں ہیں لیکن اس پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

سندھ سوشل ویلفیئر کے سیکریٹری نے نشاندہی کی کہ اسی مقام سے 8 بچیوں کو ریسکیو کیا گیا تھا اور مقتولہ کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا تھا۔

سینیٹر ولید اقبال نے تجویز دی کہ تمام صوبے بچوں کا گھریلو استحصال روکنے کے لیے قانون سازی کریں اور بچوں سے زیادتی کے کیسز میں انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں پادری لیوک وکٹر اور غزالہ شفیق کی غیرقانونی گرفتاری پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

کمیٹی نے آر پی او کو ہدایت کی کہ انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد جمع کرائی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں