الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں پر ’فافن‘ کا تجزیہ غلط فہمی پر مبنی قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2023
الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ صرف 64 حلقے ایسے ہیں جن میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ ہے — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ صرف 64 حلقے ایسے ہیں جن میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ ہے — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں میں مختلف حلقوں کی آبادی میں وسیع فرق کو درست قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پورے صوبے میں نہیں بلکہ صرف ایک ضلع کے اندر حلقوں کی آبادی کے درمیان برابری برقرار رکھی جانی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے نام لیے بغیر فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے تجزیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی حلقہ بندیوں کے حوالے سے تجزیہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔

ایک بیان میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 51 کے تحت صوبوں کو ان کی آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی 266 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے وضاحت کی کہ صوبوں کے لیے مختص نشستوں اور ان کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا کوٹہ طے کیا گیا جس کی بنیاد پر قاعدہ 8 (2) کے تحت ہر ضلع کی نشستیں مختص کی گئیں جس کے بعد اضلاع کی آبادی اور ان کی نشستوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندی کی گئی۔

تنقیدی جائزے کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے کہا کہ ادارے (فافن) نے حلقوں کی آبادی کے سائز میں فرق کا تجزیہ کرتے ہوئے نشستوں کا تعین کرنے کے لیے ضلع کو ایک یونٹ کے طور پر نہیں لیا بلکہ صوبے کے کوٹے کو ایک یونٹ کے طور پر لیا اور بنیادی انتظامی یونٹ یعنی ضلع کو نظر انداز کیا گیا جس سے ابہام پیدا ہوا۔

تاہم انتخابی امور کے ماہرین نے الیکشن کمیشن کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندی کے اصولوں کو طے کرنے والا قانون بہت واضح ہے اور یہ کسی ضلع کے نہیں بلکہ اسمبلی کے حلقوں کی آبادی کے بارے میں بات کرتا ہے، کوئی قاعدہ کسی قانونی شق میں ترمیم یا اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔

الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 20 (3) میں لکھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، کسی اسمبلی یا بلدیاتی حکومت کے حلقوں کی آبادی میں فرق عموماً 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

ذیلی سیکشن 4 کہتا ہے کہ اگر ذیلی سیکشن (3) کے تحت 10 فیصد کی حد کسی غیر معمولی صورتحال میں تجاوز کر جاتی ہے تو الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے آرڈر میں اس کی وجوہات درج کرے گا۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کے دوران آبادی کے علاوہ دیگر اصول بھی ہیں جن کا تذکرہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 20 میں کیا گیا ہے، مثلاً انتظامی اکائی اور یکسانیت جسے الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں کے دوران مدنظر رکھا ہے۔

الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ صرف 64 حلقے ایسے ہیں جن میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ ہے اور اس فرق کی وجوہات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اعتراضات داخل کرانے کی سہولت قانون اور قواعد میں فراہم کی گئی ہے تاکہ ابتدائی حلقہ بندیوں میں غلطیوں کو درست کیا جا سکے، اگر ابتدائی حلقہ بندیوں میں ایسی کوئی غلطی پائی گئی جس کی قانون میں اجازت نہیں ہے تو اسے اعتراضات کی سماعت کے دوران درست کردیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کا آج اجلاس

دریں اثنا الیکشن کمیشن کا اجلاس آج ہوگا جس میں آئندہ عام انتخابات کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی مبصرین کو مدعو کرنے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ الیکشنز ایکٹ، الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مقامی یا غیر ملکی مبصرین کو انتخابات کی نگرانی کے لیے مدعو کرے۔

علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے انتخابات کے ضابطہ اخلاق پر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ 4 اکتوبر کو ہونے والا مشاورتی اجلاس ملتوی کر دیا ہے جو کہ اب 11 اکتوبر کو ہوگا۔

پی ٹی آئی کی چیف جسٹس سے درخواست

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی نے چیف جسٹس آف پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ آئین کے تقدس اور احترام کے تحفظ کے لیے فوری طور پر مداخلت کریں کیونکہ نگران حکومت، الیکشن کمیشن اور پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہنے والی کچھ سیاسی جماعتیں لوگوں کو ووٹ کے حق سے غیر معینہ مدت کے لیے محروم کر رہی ہیں۔

ایک بیان کے مطابق پی ٹی آئی قیادت نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ آئین کے تقدس کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائیں کیونکہ قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کی صورت میں 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد لازمی آئینی تقاضا ہے۔

بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کور کمیٹی کا اجلاس کہاں ہوا اور اس کی صدارت کس نے کی۔

تبصرے (0) بند ہیں