پارلیمنٹ کو دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر اچھے کام سے نہیں روکنا چاہیے، چیف جسٹس

شائع October 9, 2023
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ میں ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آکر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو اُس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں اور دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر پارلیمنٹ کے اچھے کام رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جسے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی کردی۔

سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 مطابق کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سپریم کورٹ آئین اور قانون کے تابع رولز طے کر سکتی ہے، اس لیے میری عاجزانہ رائے ہے کہ کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھنے والی واحد اتھارٹی پارلیمنٹ نہیں سپریم کورٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’قانون اور آئین کے تابع‘ کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اگر قواعد طے کرنے کے اختیار کو قانون سازی سے مشروط کر دیا جائے تو سپریم کورٹ کی قانون سازی کا اختیار ختم ہوجائے گا، قانون سازی کا آئینی اختیار ایک مستقل طاقت سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی پابندی نہیں ہوسکتی۔

تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے دلائل کے تحت آئین کے 6 الفاظ کو ’بےمعنی قرار دے کر‘ حذف کیا جا سکتا ہے، اگر میں آپ کے دلائل کو قبول کرلوں تو میں اسے اس طرح سمجھوں گا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آئین کہتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانے کے لیے بااختیار ہے، اگر سپریم کورٹ آئین سے بالا رولز بناتی ہے تو کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں۔

عابد زبیری نے استدلال کیا کہ ’تابع‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ اختیار فطرتاً محدود ہے کیونکہ ایک آئینی اختیار، جو ایک مسلسل طاقت ہے، سپریم کورٹ کو دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین اگر قانون سازی کے لیے اختیار دے رہا تھا تو اس میں مخصوص الفاظ استعمال کیے گئے، انہوں نے آرٹیکل 154 (5) کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا کہ جب تک مجلس شوریٰ قانون کے ذریعے بندوبست نہیں کرتی، مشترکہ مفادات کونسل اپنے رولز آف پروسیجر بنا سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اس کے بعد کی پارلمینٹ قانون سازی کے ذریعے ان قوانین کو معطل کر سکتی ہے جو سپریم کورٹ نے قانونی اور آئینی طور پر وضع کیے ہوں؟

عابد زبیری نے جواب دیا کہ نہیں، وہ اس وجہ سے نہیں کر سکتی کیونکہ پھر یہ روایت بن جائے گی، مثلاً کیا اب سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اوور رائیڈ کرتے ہوئے اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی قانون بنا سکتی ہے؟ یہ سلسلہ کہاں رکے گا؟

آج کیس کی سماعت کا آخری دن ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرے سوال کا جواب دے دیں کہ اگر ’سبجیکٹ ٹو لا‘ کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑے گا، وقت کم ہے جواب جلدی دیں۔

عابد زبیری نے جواب دیا کہ اگر آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے الفاظ ہٹا دیے جائیں تو بھی فرق نہیں پڑے گا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بس ٹھیک ہے جواب آ گیا اگلے نکتے پر جائیں، آج کیس کی سماعت کا آخری دن ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آج ہم یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، آج اس کیس کو ختم کرنا ہے، اپنے دلائل کو 11 بجے تک ختم کریں، ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔

دوران سماعت عابد زبیری کی جانب سے عدالت میں کاغذات جمع کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا، اتنے سارے کاغذ ابھی پکڑا دیے، ہم نے کہا تھا کہ یہ پہلے دائر کردیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا؟ کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟ مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں، کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ آپ جیسے سینئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی، کیا آپ یہ کام پہلے نہیں کر سکتے تھے؟

دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 175 نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا ہے لیکن اسے آرٹیکل 142 (اے) اور انٹری 55 کے ساتھ پڑھنا ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191 دائرہ اختیار دیتا ہے یا یہ طاقت دیتا ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ میں کہوں گا کہ یہ طاقت دیتا ہے، پروویژن میں استعمال ہونے والا سب سے اہم لفظ ’ریگولیٹ‘ ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191 دائرہ اختیار نہیں دیتا بلکہ یہ طاقت دیتا ہے، دائرہ اختیار اور طاقت میں فرق ہوتا ہے۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت استعمال کیا جانے والا اختیار ایک آئینی طاقت ہے جس نے سپریم کورٹ کو اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیا ہے، پارلیمنٹ اس سلسلے میں مداخلت نہیں کر سکتی، ’تابع‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک قابل عمل پروویژن نہیں ہے بلکہ یہ ایک پابندی والی پروویژن ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 184/3 کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ تو پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں، سپریم کورٹ خود مقدمات میں آرٹیکل 184/3 کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط ہے۔

انہوں نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ نے عدالت کے سامنے کوئی درخواست جمع نہیں کرائی تھی، قانون کے حوالے سے آپ کے اضطراب کی وجہ کیا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت استعمال ہونے والے دیگر اختیارات کیا قواعد میں درج تھے یا نہیں؟ آرٹیکل 191 میں یہ نہیں کہا گیا کہ چیف جسٹس رولز یا ہیومن رائٹس سیل بنا سکتے ہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے کہ دنیا انگلی اٹھائے، میں خود پر انگلی اٹھاتا ہوں، آرٹیکل 184 (3) کے تحت ہزاروں مقدمات میں اختیارات استعمال کیے گئے، کچھ عوامی مفاد کے لیے تھے لیکن کچھ ذاتی مفاد کے لیے کیے گئے، آپ اس کی وضاحت نہیں کر رہے ہیں۔

آرٹیکل 184 (3) کا استعمال پاکستان کی حقیقت ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 (3) کا استعمال پاکستان کی حقیقت ہے، یا تو دلیل دیں کہ اس کا صحیح استعمال ہوا یا پھر کہہ دیں کہ ایسا نہیں ہوا اور پھر اس کا کوئی حل بتائیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر غلطی ہوئی ہے تو اس کا تدارک کس کی ذمہ داری ہے؟ سب سے بڑی ذمہ داری اس عدالت کی ہے، اس کے بعد شاید پارلیمنٹ، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے، پارلیمنٹ نے غلطی کی ہے تو اسے سدھارنا چاہیے، اگر ہم اپنی غلطی کو درست نہیں کریں گے تو کیا پارلیمنٹ کر سکتی ہے؟ پاکستان میں جو کچھ ہوا آپ اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عابد زبیری ایک مخصوص پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں جس پر عابد زبیری نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے پیش ہوئے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مؤقف بتائیں، جس طریقے سے آرٹیکل 184 (3) کا استعمال کیا جا رہا ہے، کیا یہ درست ہے؟ اگر ہم اس قانون کو ختم کرتے ہیں یا اگر میں پہلے کی طرح آرٹیکل 184 (3) کا استعمال کرتا رہوں تو کیا یہ درست ہوگا؟

عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 184 (3) کا ماضی میں غلط استعمال کیا گیا تھا اور اس پر کئی سوالات اٹھائے گئے تھے، اس کا غلط استعمال ہوا ہو یا غلط، اِس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اسے درست کرنے کی اہلیت یا دائرہ اختیار کس کے پاس ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے پاس ویسے بھی اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھا یا کم کر سکتا ہے، کیا پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں اچھے برے یا صحیح غلط کا سوال نہیں، اختیار کا سوال ہے، یہ بتائیں کہ قانون جتنا بھی اچھا ہو، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اگر انصاف تک رسائی کے حق کی سپریم کورٹ خلاف ورزی کر رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی؟ آپ اس کیس کے قابل سماعت ہونے پر دلیل نہیں سے سکے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے زیادہ بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے، اگر چیف جسٹس یہ کیس پہلے مقرر کر رہے ہیں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق نہیں تو پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماضی میں آرٹیکل 184 (3) کا استعمال صحیح ہوا یا غلط؟ میرے سوال کا جواب دیں کہ بطور سپریم کورٹ بار آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر مگر نہیں سیدھا جواب دیں، عابد زبیری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 184 (3) کا غلط استعمال ہوا اور اس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 184 (3) کا استعمال کیسے ہوا؟ کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں ہے؟ آرٹیکل 184 (3) سے متعلق ماضی کیا رہا؟ یا تو کہہ دیتے کہ 184 (3) میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں۔

سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے کہ دنیا مجھ پر انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، آپ یہ تو کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے اگر غلطی کی تو پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیوجرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں، سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اس کو درست کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟ عابد زبیری نے جواب دیاکہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184 (3) پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 (3) کا غلط استعمال ہوتا رہا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے کو بھی ہم آرٹیکل 184 (3) کے تحت سن رہے ہیں، آپ کے مطابق آرٹیکل 184 تھری کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے نہ سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ خود مقدمات میں آرٹیکل 184 (3) کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک، پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہ راست سپریم کورٹ میں درخواست آسکتی ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ جی بالکل آسکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا جواب نوٹ کر رہا ہوں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے یہ بتا دیں، عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق صرف آرٹیکل 185 کے تحت ہے، آئین کے اصل دائرہ اختیار 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کی جوابی دلیل میں یہ دے سکتا ہوں کہ آرٹیکل 184 تھری کا استعمال کیسے ہوا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو کیا اس کے خلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی مریض کہیں مر رہا ہو اور کوئی میڈیکل کی ذرا سی سمجھ رکھتا ہو تو وہ اس لیے مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے؟ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ہے یا ورنہ اس کو کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔

ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ کر دیتا ہے، امریکا میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی، عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں، اس پر چیف جسڑس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ایکٹ میں آئین کی کون سے شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بالواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کی باتیں نہ کریں آج کی صورتحال بتائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کو آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نہ ہوتی، آپ مدعی نہیں ہیں، نہ مدعا علیہ ہیں، توپھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟

دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کردیا، وقفے کے بعد کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پوری ہونی چاہیے لیکن فرد واحد آ کر آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تواس کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے، اگر کسی نے 188 کے تحت نظر ثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے تحت نظر ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ بوجھ سپریم کورٹ پر پڑے گا تو گھبراہٹ آپ کو کیوں ہو رہی ہے؟ آپ کے دلائل مکمل ہو گئے، اب اگلے فریق کو 20 منٹ سنیں گے۔

دریں اثنا درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا۔

عدنان خان نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے آفس کو پارلیمنٹ نے بےکار کر دیا، سپریم کورٹ دو بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے، صرف چیف جسٹس کیس سن لیتے۔

ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کیلئے اپنا دماغ استعمال کرتے تھے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے؟

عدنان خان نے کہا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بینچز بنا سکتا ہے، چیف جسٹس اور دیگر ججز میں فرق انتظامی اختیارات ہیں، ایکٹ میں فوری مقرر ہونے والے مقدمات کا طریقہ کار دے کر سپریم کورٹ کی تضحیک کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے بھی کیس مقرر کرنے کے لیے اپنا دماغ استعمال کیا کرتے تھے، میں نے تو پہلے ہی کیس منیجمنٹ کمیٹی کو کیسز کے تقرر کا اختیار دیا ہے، کیا میں نے کیس منیجمنٹ کمیٹی بنا کر آئینی خلاف ورزی کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پشاور ہائی کورٹ کے حراستی مراکز سے متعلق فیصلے کے خلاف اپیل 4 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اہم کیسز کے مقرر نا ہونے پر قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر میں حراستی مراکز سے متعلق کیس مقرر نہیں کرتا تو آپ کے پاس کیا حل ہو گا؟

عدنان خان نے کہا کہ مشاورت اچھی چیز ہے اور چیف جسٹس اپنے ساتھیوں میں سے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں، اس قانون میں کہیں مشاورت کا درج نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی ایسا قانون یا شرعی قانون ہے کہ اپیل کا کوئی حق نہیں ہے؟ قانون یا شرع کی رو میں کہاں درج ہے کہ قاضی کا فیصلہ آخری ہو گا؟ کوئی حوالہ دے دیجئے۔

اس موقع پر عدنان خان نے عدالت کو ریفرنس جمع کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد درخواست گزار محمد شاہد رانا ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔

چیف جسٹس اور وکیل کے درمیان تلخ کلامی

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا تو وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کے لیے وقت نہ دینے پر اعتراض اٹھادیا، اس پر چیف جسٹس اور وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہمیں سنیں گے پھر اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہمیں نہ سننا ناانصافی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں لکھا ہے حکمنامے میں کہ آپ کو ابھی سننا ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آپ ہمارے ساتھ اپنا سلوک دیکھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بات کرنے کی تمیز بھی ہوتی ہے، پچھلی سماعت کا تمام ججز کے دستخط کے ساتھ حکمنامہ جاری ہوا تھا، حکمنامہ میں درج ہے کہ امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہو چکے اور وہ مزید دلائل دینا نہیں چاہتے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ میرے ساتھی خواجہ طارق رحیم آپ کے رویے کی وجہ سے آج عدالت نہیں آئے، خواجہ طارق رحیم نے آپ کو پیغام پہنچانے کا کہا ہے۔

چیف جسٹس نے انہیں متنبہ کیا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیے ورنہ میں کچھ ایشو کروں، دریں اثنا وکیل امتیاز صدیقی واپس نشست پر براجمان ہوگئے۔

شاہد رانا نے دلائل دیتے ہوئے کہا اگر 15 ججز فیصلہ کریں گے تو اپیل کس کے پاس جائے گی؟ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 15 ججز فیصلہ کریں گے تو نہیں ہو گی اپیل یہاں اللہ کے پاس جائے گی۔

شاہد رانا نے کہا کہ ہائی کورٹ میں فیصلہ دینے والے جج سے انٹراکورٹ اپیل میں مختلف ججز کیس سنتے ہیں، سپریم کورٹ میں اپیلیں آرٹیکل 185 کے تحت ہوتی ہیں، آرٹیکل 185 کے تحت اپیل اب آرٹیکل 184 میں تو نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو اس بات کا جواب فیصلے میں دے دیں گے، یہ معاملہ پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا پتا سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو، سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے تو قانون سازی سے اس کو درست نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ یہاں بار کے انتخابات جیتنا مشکل ہے وہاں دو تہائی اکثریت کے لیے نمبرز پورے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 (3)کے دائرہ کار میں کیے گئے تمام فیصلے درست ہیں؟

شاہد رانا نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184 (3) کے تحت مفاد عامہ کے کیسز سننے چاہیے، مفاد خاصہ کے نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا قلم ہوا میں رہ جاتا ہے، آپ پہلے اپنا پوائنٹ پورا کر دیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ فل کورٹ کو اپنی رائے بتا دیں۔

یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے پارلیمنٹ قانون سازی کرسکتی ہے، وکیل مسلم لیگ (ق)

اس دوران وکیل زاہد ابراہیم نے کہا کہ یہ کیس خود تسلیم کر رہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیسے ممکن ہے کہ ’سبجیکٹ ٹو لا‘ لکھ کر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے رولز پر قانون سازی کا اختیار دے دیا گیا ہو؟ آرٹیکل 188 اور آرٹیکل 191 میں فرق ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وکیل زاہد ابراہیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 142 قانون سازی کے اختیارات دیتا ہے، ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھایا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بڑھایا اسی چیز کو جاتا ہے جو پہلے سے موجود ہو، اپیل کا حق 184 (3) میں تو موجود ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے یہی کر دے تو کیا یہ عدالت پھر بھی اس کا جائزہ نہیں لے سکتی؟ یا تو یہ کہیں کہ پارلیمنٹ سرے سے ایسا کر ہی نہیں سکتی، پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے 184 (3) کو ختم ہی کر دے تو نئی بحث چھڑ جائے گی، میں صرف ججز کے سوالات سن رہا ہوں کچھ لکھ نہیں رہا، پہلے اپنے دلائل تو پیش کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے اختیار کے تحت آرٹیکل 191 کہتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز قانون سے بدلے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل زاہد ابراہیم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ آپ سب کے دلائل سے متفق ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بینچ میں بیٹھے جج کو حق حاصل ہے کہ وہ سوال کرے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو موجودہ قانون کا دائرہ بڑھانے کا اختیار ہے، اپیل کا حق دے کر قانون کا دائرہ بڑھایا کیسے گیا؟ قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کچھ شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیار کو بڑھانے کو آرٹیکل 175 شق 4 کے ساتھ ملا کر پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بار بار آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے پاس شروع سے رولز سے متعلق قانون سازی کا اختیار تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اپیل تو ایک ضابطے کا معاملہ ہے یا کسی کا بنیادی حق ہے؟ وکیل زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ اپیل بنیادی حق ہے، اسلام بھی پابند کرتا ہے کہ اپیل کا حق ملنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں کئی بار وکلا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے آرٹیکل 184 (3) کے اختیار کا غلط استعمال کیا۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا دائرہ اختیار کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے بڑھایا جا سکتا ہے یا اس کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے؟ کیا آئین کی دیگر شقوں کو آئینی ترمیم کے بغیر بدلا جا سکتا ہے؟ جس طریقہ کار سے آئین میں ترمیم ہو سکتی ہے اسی طرح کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق پارلیمان سپریم کورٹ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم بڑھانے کے لفظ کو پابندی کے لیے استعمال کریں گے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جب بھی مرضی ہوگی قانون بنائیں گے، کیا یہ آپ کی دلیل ہے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زاہد صاحب برائے مہربانی اپنے دلائل تو بتائیں پہلے؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اس قانون کے بعد ماسٹر آف روسٹر کون ہے؟ وکیل زاہد ابراہیم نے جواب دیا کہ کمیٹی فیصلہ کرے گی۔

جسٹس منیب اختر نے استسفار کیا کہ کمیٹی نے پارلیمان ماسٹر آف روسٹر ہو گی، نکتہ یہ ہے کہ موجودہ کیس سمیت کسی بھی صورتحال میں پارلیمان ماسٹر آف روسٹر بن جائے گی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہاں لکھا ہوا ہے؟ رولز میں چیف جسٹس کے بینچ مقرر کرنے کا ہے، مقدمات کا مقرر کرنے چیف جسٹس نے رجسڑار کا اختیار ہے، ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کس قانون میں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ دنیا میں اب کہیں بھی ماسٹر آف روسٹر کا لفظ نہیں، اگر ایک شخص کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہے تو اس سے کیس کا نتیجہ متاثر کر سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک شخص نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے تو 3 بھی ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ پیغام اس عدالت سے نہیں جانا چاہیے کہ آئین و قانون کا انحصار چیف جسٹس کی خواہشات پر ہے، آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات پر منحصر نہیں، یہ عدلیہ کیا آزادی اور قانون کے منافی ہے، میں ماسٹر نہیں آئین کے ماتحت ہوں۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ق) کے وکیل زاہد ابراہیم کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

’ہم اپنے سائے سے کیوں ڈرے ہوئے ہیں؟‘

مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے دلائل دیے کہ کیس ابتدائی طور پر عدلیہ کی آزادی کے لیے اندرونی خطرے سے متعلق تھا۔

انہوں نے کہا کہ میرا مؤقف یہ ہے ہوگا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے آئینی ضمانت بیرونی اور اندرونی آزادی دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات سے متعلق خدشات نئے نہیں تھے اور یہ خدشات کئی دفعہ اٹھائے گئے تھے یہاں تک کہ عدلیہ کی جانب سے بھی اٹھائے گئے تھے۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ اس بینج کے 10 ارکان نے اختیارات کا چیف جسٹس کے دفتر پر مرتکز ہونے پر خدشات کا اظہار کیا تھا اور میرا مؤقف کسی طرح کے دلائل پر ہوگا۔

انہوں نے عدالت کو یادہانی کروائی کہ پارلیمان نے ماضی میں کئی قراردادیں منظور کی ہیں، جس میں ازخود نوٹس اور ماسٹر آف روسٹر ریگیولیٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا کہ متوقع طور پر گزشتہ دو سے تین برسوں کے دوران قراردادوں کا انداز اور سمت میں تبدیلی لائی گئی، پارلیمنٹ نے حالیہ قرارداد میں آرٹیکل 175 اور 191 کے تحت براہ راست بتایا اور سمت بھی تبدیل ہوئی کیونکہ اس عدالت کی جانب سے اس کے انتظامی حوالے سے کوئی مؤثر جواب نہیں دیا گیا۔

بیرسٹر صلاح الدین نے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بینچز کی تشکیل اور مقدمات کا مقرر کرنا آئینی اختیار نہیں۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا اس کا یہ مطلب ہے پارلیمنٹ کو اختیار مل گیا، کیا پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر ہے اس نکتے پر آئیں،کس کی کیا رائے ہے وہ الگ بات ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے بھی وکیل سے کہا کہ آپ اس نکتے پر آئیں جو ہمارے سامنے ہے۔

جسٹس منیب اختر نے وکیل سے سوال کیا کہ آہ نے 1861 کا انڈیا ایکٹ دیکھا ہے تو بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ نہیں، جس پر جسٹس منیب نے کہا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں اس اختیار کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی راج کا آغاز ہونے کے بعد 1861 میں پہلا قانون بنایا گیا، آئینی تاریخ دیکھیں تو ماسٹر آف روسٹر کے معاملے میں مداخلت پر واٹر مارک ہے اور کئی برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اس کو تاریخی تناظر میں دیکھیں گے تو یہ آئینی اختیار قدیم ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہمارے آئینی قانون، کنونشز قانونی طور پر قابل اطلاق ہیں، اگر اس قانون کو لاگو کیا گیا تو یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ آئینی کونشن ہے اور اسی لیے سیکشن 3 اور 4 الٹرا وائرس ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ آئینی کنونشنز بھی آئینی تقاضوں کے ماتحت ہے، جس کے بعد انہوں بھارتی سپریم کورٹ سے مثال دینا شروع کیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے مداخلت کی اور کہا کہ پاکستان نے 1947 میں آزادی حاصل کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم دوسرے ممالک سے بھی سیکھ سکتے ہیں لیکن بھارتی فیصلوں کے حوالوں پر میں نے بھارت میں اس طرح کبھی نہیں دیکھا۔

وکیل نے کہا کہ چلیں ہم اپنی مثالوں سے رہنمائی لیتے ہیں، پڑوسیوں کے فیصلوں کی غلطیوں سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔

جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ ہمسایہ ممالک میں بھی غلطیاں ہذف کرسکتی ہے یا دنیا میں مثالیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے برطانیہ کی مثال دی تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی کی سپریم کورٹ میں بھی بینچ کا تصور نہیں ہے اور برطانیہ میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے جو مثالیں پیش کیں وہ الگ نوعیت کی ہیں، کسی اور عدالت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دینا الگ بات ہے، سپریم کورٹ کے اپنے آرڈر کے خلاف اپیل کا حق دینا الگ معاملہ ہے، آئین میں ترمیم سادہ قانون سازی سے کیسے کی جا سکتی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت دائرہ کار قانون سازی سے کیسے بڑھ سکتا ہے یہ بتائیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک نکتے پر آئین کی دو تشریحات موجود ہوں تو جو تشریح اسلام کے قریب ہو اسے فوقیت ملے گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جن مقدمات میں نظرثانی ہو چکی کیا انہیں بھی اپیل کا حق ملے گا، وکیل نے کہا کہ قانون بننے سے 30 دن پہلے تک کے جو فیصلے ہیں صرف ان پر اپیل کا حق ملے گا۔

پارلیمنٹ کی صلاحیت

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر مقننہ کہتی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی آئینی نکات کی تشریح درست نہیں ہے اور ہم ٹھیک ہیں، جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے منفی میں جواب دیا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل سے وضاحت مانگی کہ اگر پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے اہل تھی، اگر اہل ہے تو پھر ہمیں پارلیمنٹ کا احترام کرنا چاہیے اور اس کو ڈکٹیشن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پھر یہ صلاحیت کے ساتھ بنایا گیا قانون ہے لیکن پہلے ہمیں یہ جاننا ہے کیا پارلیمنٹ قانون سازی کی اہل ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک صورت یہ ہے کہ قانون کو جانے دیا جائے، جس سے اس پر عمل درآمد میں عدم اطمینان ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سوال پر ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ہم جہاز چلانے کے اہل نہیں ہیں، واحد چیز جو پہلے کی گئی وہ یہ تھی کہ وہاں پائلٹ تھا اور اب دو ساتھی پائلٹس ہیں اور اس کے لیے انہوں نے نگران چیف جسٹس کی مثال بھی دی جو چیف جسٹس کے ملک سے باہر جانے کی صورت میں عہدہ سنبھالتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اپنے سائے سے کیوں خوفزدہ ہیں، ہم سب کیوں فرض کر رہے ہیں کہ ہم برف کے تودے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے نیچے ہم دب جائیں گے، اب تک کچھ نہیں ہوا ہے، اصل سوال اہلیت کا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ آرٹیکل 191 اکیلے شق کو قابل عمل بناتا ہے، آرٹیکل 58 کے پہلے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ پارلیمنٹ کے بارے میں اس کی قانون سازی کی اہلیت پر وضاحت ہوجاتی ہے اور سپریم کورٹ کے معاملات وفاق سے متعلق ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ہائی کورٹس سپریم کورٹس سے بہتر چلائی جا رہی ہیں۔

اس سوال پر صلاح الدین نے کہا کہ یہ عدالت سے عدالت اور چیف جسٹس سے چیف جسٹس پر منحصر کرتا ہے اور یہ مخصوص طور پر اس قانون پر دلالت کرتا ہے کہ چیف جسٹس پر انحصار نہیں ہونا چاہیے اور اس حوالے سے ایک فریم ورک اور اسٹرکچر ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نشان دہی کی کہ ہائی کورٹس میں اپیل کا فورم ہے، یہاں مسئلہ کئی پہلووں کی وجہ سے سامنے آگیا ہے، اختیارات کا مرتکز ہونا، اختیارات کا یک طرفہ استعمال، اختیارات کے استعمال کے لیے غیرشفاف انداز، 184 تھری کا جارحانہ استعمال جیسے پہلو اس ایکٹ کے وجود میں آنے کی وجہ ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ آج آپ آخری وکیل ہوں گے اور کل ساڑھے 11 بجے سماعت دوبارہ شروع ہوگی۔

بیرسٹر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک قانون موجود ہے تو ججز سے اس پر عمل درآمد کی توقع کی جاتی ہے۔

بعد ازاں سماعت صبح تک ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ 3 اکتوبر کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا تھا کہ اس ایکٹ سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کیسے کم ہوئے؟

قبل ازیں 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کر رہا ہوں۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آخر میں حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ بینچوں کی تشکیل کے لیے سینئر ترین جج سردار طارق مسعود اور جج اعجازالاحسن سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ ہم اپنے طور پر کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے فریقین سے کہا تھا کہ وہ اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیں اور سماعت کی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کردی تھی، جس پر درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے اتفاق کیا تھا۔

حکم نامے میں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے دائر کی گئیں درخواست فل کورٹ کی تشکیل کی بنیاد پر نمٹا دی گئی ہیں۔

درخواستوں کا متن

واضح رہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا نفاذ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو معطل کر دیا تھا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ، ایکٹ معطلی کے فیصلے کو منسوخ کر سکتا ہے۔

قانون کو معطل کرتے ہوئے رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے لیکن اس نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے نفاذ میں آئین سے انحراف، آئین کی خلاف ورزی یا آئین سے ماورا کوئی شق تو شامل نہیں کی گئی۔

درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا تصور، اس کی تیاری، اس کی توثیق اور اس کو منظور کیا جانا بددیانتی پر مبنی ہے، لہٰذا اسے خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو عدالت عظمیٰ کے آئین کے تحت کام یا چیف جسٹس سمیت اس کے دیگر ججز کے اختیارات میں مداخلت کا باعث ہو یا جس کے ذریعے اس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ نیب ترمیمی کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے پر غور کریں یا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کی قانونی حیثیت کا فیصلہ ہونے تک انتظار کریں۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو آج 18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے لیے نوٹس پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

پس منظر

10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا۔

12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

اسی روز سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں، 2 درخواستیں وکلا اور دو شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں، جنہیں 13 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔

13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔

21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

قانون کی شقیں

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

کارٹون

کارٹون : 7 اکتوبر 2024
کارٹون : 6 اکتوبر 2024