’معلومات تک رسائی شہریوں کا حق‘، سپریم کورٹ کا اپنے ملازمین کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2023
فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی
فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنایا — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اپنے ملازمین کی تفصیلات فراہم کرنے کی شہری کی درخواست منظور کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو 7 روز کے اندر تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق مقدمے کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنایا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ 7 روز میں معلومات درخواست گزار کو فراہم کرے، معلومات کے حصول کا تقاضا کرنے والے پر وجوہات بتانا لازم ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو انٹرا کورٹ اپیل اور سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے جمع کرائی گئی فیس واپس کی جائے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فیصلے کو اردو میں بھی جاری کیا جائے گا، معلومات فراہم کرنے والا وجوہات کے جائزے کا پابند ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ پر بھی ہوتا ہے، آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی شہریوں کا حق ہے۔

واضح رہے کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے سے کسی بھی قسم کی معلومات اور دستاویزات حاصل کرسکتا ہے۔

اس سلسلے میں مرکز اور صوبوں نے معلومات تک رسائی کے لیے قانون سازی بھی کی ہے جس کے تحت پاکستان میں معلومات تک رسائی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری محکمے سے تحریری طور پر معلومات مانگ سکتا ہے اور اس کے لیے شہری سرکاری محکمے کو ان معلومات کے حصول کے اغراض و مقاصد بتانے کا پابند نہیں ہے۔

معلومات کے لیے تحریری درخواست دینے کے بعد 14 دن تک جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں شہری کو متعلقہ انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔

قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002‘ کو تبدیل کرتے ہوئے ’دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017‘ منظور کیا تھا، جس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

اٹھاریوں ترمیم میں پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اے کو شامل کیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کرسکتا ہے۔

اس سلسلے میں 2018 میں پاکستان انفارمیشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جسے گزشتہ سال کے آخر تک اپنے قیام کے 4 سال بعد شہریوں کی جانب سے موصول ہونے والی کُل 2 ہزار 474 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جن میں سے وزارت دفاع سے متعلق سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جب کہ اس کے بعد درخواستیں وزارت خزانہ کے حوالے سے دائر کی گئی تھیں۔

غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین ملک میں شفافیت کو یقینی بنانے کا بہترین ذریعہ ہیں، تاہم بدقسمتی سے یا تو لوگوں کو اس بارے میں علم نہیں ہے یا وہ اسے استعمال نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2002 موجودہ قانون کی نسبت بہت کمزور قانون تھا اس کے باوجود پلڈاٹ نے اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی سے اراکین اسمبلی کی حاضری سے متعلق معلومات حاصل کرلی تھیں، اگر کوئی شخص معلومات کے حصول میں سنجیدہ ہو تو یہ قوانین انہیں معلومات کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہ مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کا نہیں بلکہ شہریوں کی جانب سے ان قوانین کو استعمال نہ کرنے کا ہے۔

معلومات کی آزادی اور شفافیت کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے پروگرام مینیجر وقاص نعیم کا کہنا تھا کہ ایسے تمام معاملات جن میں عوام کا پیسہ استعمال ہوتا ہو ان میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات تک رسائی کے قوانین مؤثر ذریعہ ہیں، تاہم ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ کمیشنز کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سماجی تنظیموں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کو چاہیے کو وہ ان قوانین اور ان کی افادیت سے متعلق عوام میں شعور اجاگر کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں