قرض پروگرام کا پہلا جائزہ: آئی ایم ایف کی ٹیم 2 نومبر کو پاکستان آئے گی

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2023
عالمی قرض دہندہ کی پاکستان میں موجود نمائندہ نے آئی ایم ایف مشن کے دورے سے متعلق  تصدیق کی — فائل فوٹو: رائٹرز
عالمی قرض دہندہ کی پاکستان میں موجود نمائندہ نے آئی ایم ایف مشن کے دورے سے متعلق تصدیق کی — فائل فوٹو: رائٹرز

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد پاکستان کے موجودہ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے پہلے جائزے سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے 2 نومبر کو ملک کا دورہ کرے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان سے متعلق عالمی قرض دہندہ کی ملک میں موجود نمائندہ نے تصدیق کی۔

آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز کے مطابق ناتھن پورٹر کی سربراہی میں عالمی مالیاتی فنڈ کی ٹیم موجودہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت جاری پروگرام کے پہلے جائزے سے متعلق 2 نومبر سے پاکستان کا دورہ کرے گی۔

واضح رہے کہ 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان نے ملک کا معاشی بحران کم کرنے کے لیے عملے کی سطح پر 3 ارب ڈالر اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا تھا۔

معاہدے کے تحت 13 جولائی کو عالمی مالیاتی فنڈ سے پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط موصول ہوگئی تھی جب کہ اس جائزے کے بعد مزید 71 کروڑ ڈالر کی دوسری قسط جاری کی جائے گی۔

اس موقع پر اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے قرض پروگرام کی منظوری دی، یہ 9 ماہ کا پروگرام ہے جس کے تحت پاکستان کو 3 ارب ڈالر ملنے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ ابتدائی قسط ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ہوگی اور ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کی باقی رقم 2 جائزوں کے بعد ملے گی جو کہ نومبر اور فروری میں ہوں گے۔

اس معاہدے کا پاکستان کو طویل عرصے سے انتظار تھا جس کی ڈولتی معیشت ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کا سامنا کر رہی تھی۔

تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد ہونے والا یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط تھا، جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملی۔

9 ماہ پر محیط 3 ارب ڈالر کی فنڈنگ پاکستان کے لیے توقع سے زیادہ ہے، کیونکہ ملک 2019 میں طے پانے والے 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بقیہ ڈھائی ارب ڈالر کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا جس کی میعاد معاہدے سے ایک ماہ قبل ہی ختم ہو گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں