جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اپ ڈیٹ 01 نومبر 2023
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس میں 6 فروری 2019 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں، اس پر کمرہ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ دیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں بتایا گیا وہ راستے میں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزامات لگائے ہیں، کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جاچُکی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔

اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹی فکیشن پڑھ کر سنایا، دریں اثنا ابصار عالم کمرہ عدالت پہنچ گئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ (غیرموجود) ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی ٹی او آرز آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں کہ ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی کینیڈا جا کر فساد کر کے واپس پاکستان آسکتا ہے؟ کیا ہم کینیڈا میں جا کر اُن کے پورے ملک کو ڈسٹرب کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حق صرف کینیڈا سے آنے والوں کو حاصل ہے، انہیں کون لے کر آیا تھا، کینیڈا سے سبق سیکھیں، انہوں نے ایک سکھ رہنما کے قتل پر بڑے ملک سے ٹکر لے لی، کینیڈا واپس چلے گئے تو بتائیں جس کام کے لیے آئے تھے کیا وہ حل ہو گیا؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ اسلام امن کا دین ہے، وہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں، وہ اسلام کی بات کر رہے تھے تو کیا سب ان سے ڈر جاتے، ایک مسلمان کو ڈرنا نہیں چاہیے، فساد فی الارض کی گنجائش نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا ایک لینڈ مارک فیصلہ تھا، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق تو وہ ایک سادہ سا فیصلہ تھا، اس وقت اچھی یا بری جیسی بھی حکومت تھی عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی، کوئی غلط قانون بن گیا تو اسپیکر کو خط لکھ دیتے یہ آپ سے غلطی ہو گئی۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد، انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی تجویز

دریں اثنا عدالت نے وفاقی حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کرتے ہوئے فیض آباد دھرنا کیس کے معاملے پر ذمہ داروں کے تعین کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دے دی، اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل پر عدالت کو 2 روز میں آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعے کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کمیٹی کس نے قائم کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی وفاقی حکومت نے قائم کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ کی منظوری لی گئی؟ کیا یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کی گئی؟

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہیں ہوا تو کمیٹی تشکیل کا یہ نوٹی فکیشن کاغذ کا ٹکڑا ہے، یہ کمیٹی پھر غیر قانونی ہے، آپ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کیوں نہیں کروائی، فرض کریں ابصار عالم کو کمیٹی بلاتی ہے اور وہ پیش نہیں ہوتے تو آپ کیا کریں گے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل سے خوش نہیں، کمیٹی اگر انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی تو شاید کچھ کربھی سکتی، انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن کے پاس تو اختیارات ہوتے ہیں، ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں، آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا، آپ ٹھیک طریقے سے کام کریں یا کہہ دیں کہ ہم نہیں کرتے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم کام کریں گے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی پر اثرات ہوں گے تو باقی بھی سوچیں گے کہ کچھ غلط کیا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آنی چاہیے کہ پہلے سب نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کیوں دائر کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی بالادستی کسی بھی قیمت پر یقینی بنانا ہوگی، آپ کے پاس موقع ہے کسی ایسے شخص سے انکوائری کروائیں جو آئین کو مقدم رکھتا ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کی مرضی ہے کہ انکوائری کے لیے جس کو مرضی تعینات کریں، ابصار عالم کے بیان کے مطابق تو الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم آئے ہیں؟ عدالت نے پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمٰن سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا کے سابق چیئرمین کا بیان حلفی پڑھا ہے؟ جواب میں پیمرا کے وکیل نے کہا کہ ابصار عالم کا بیان حلفی مجھے ابھی ملا ہے۔

اس پر عدالت نے سینیئر وکیل حافظ ایس اے رحمٰن پر اظہار برہمی کیا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو بیان حلفی گھر جا کر دیتے؟

عدالت نے ڈی جی آپریشنز پیمرا کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کالا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا آپ وکیل ہیں؟ ڈی جی آپریشنز نے جواب دیا کہ کالا رنگ روٹین میں پہنا ہے۔

چیئرمین پیمرا فوری طلب

دریں اثنا سپریم کورٹ نے چیئرمین پیمرا کو فوری طلب کرتے ہوئے سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک وقفہ کردیا، عدالت نے چیئرمین پیمرا کو ابصار عالم کے بیان حلفی کے حوالے سے طلب کیا۔

وقفے کے بعد فیض آباد نظر ثانی دھرنا کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پیمرا سلیم بیگ کمرہ عدالت پہنچ گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابصار عالم صاحب نے کچھ کاغذات جمع کرائے ہیں، چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ میں نے رپورٹ پڑھی ہے، ابصار عالم کے ساتھ جو کچھ ہوا انہوں نے بیان کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا؟ چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اخبارات میں ابصار عالم کا بیان حلفی چھپ چکا ہے، عدالتی کارروائی کو سنجیدگی سے لیں، چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ابصار عالم نے جو کہا مجھے اُس کا نہیں پتا، ابصار عالم کے بعد پیمرا میں 6 ماہ کا خلا رہا پھر میں تعینات ہوا، چیئرمین پیمرا بننے سے پہلے پرنسپل افسر گریڈ 20 میں تھا، ابصار عالم نے جو الزامات لگائے مجھے نہیں پتا، میں حقائق کی تصدیق کر سکتا ہوں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اپنی قانونی ٹیم کو کہیں مقدمے کو سنجیدہ لیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پیمرا سے متعلق فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھیں، کسی کو مارنا، جلاؤ گھیراؤ کرنا اظہار رائے کی آزادی نہیں، کیا 2 نجی ٹی وی چینل کی اب بھی کینٹ ایریا میں پابندی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نظر ثانی واپس لے رہے ہیں تو کیا فیصلے پر عمل درآمد ہوا؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پیمرا کو جو ہدایات کی تھیں کیا ان پر عمل کیا گیا؟ کیا پیمرا اوپر سے کسی حکم کے آنے کا انتظار کر رہا ہے؟ پیمرا نے 110 صفحات میں سے کسی ایک پیراگراف پر عمل کیا تو وہ بتا دیں۔

انہوں نے چیئرمین پیمرا سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ ایک ڈمی ادارے کے سربراہ ہیں؟ ملک کا ہر ادارہ مذاق بن چکا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کتنے کیبل آپریٹر کے خلاف کارروائی کی، آپ نے خود بتایا آپ پر کوئی دباؤ نہیں تھا، یہاں جو بھی کرسی پر سے اترتا ہے کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، یہ کلچر عام ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی کتنی تنخواہ ہے؟ چیئر مین پیمرا نے جواب دیا کہ ساڑھے 4 لاکھ روپے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، جب فیض آباد دھرنا چل رہا تھا اس وقت آپ چیئرمین پیمرا تھے، آپ نے غلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت کتنی ہے، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے جواب دیا کہ 4 سال کی مدت ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پھر آپ کیسے اب تک بیٹھے ہیں، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے جواب دیا کہ دوبارہ تعیناتی کی گئی تھی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ اس وقت عمر 63 سال ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت کا کیا مطلب ہے، آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا۔

نظرثانی درخواست دائر کرنا ہماری غلطی تھی، چیئرمین پیمرا

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ذرا سا ہم نے آپ کو دبایا آپ نے کہا ہم عملدرآمد کریں گے، نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی، سب نے دائر کی تو آپ نے سوچا ہم بھی کر دیتے ہیں، چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ پیمرا نے بطور ریگولیٹری ادارہ نظرثانی دائر کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اللہ آپ کو لمبی عمر دے سچ بولیں، ہم آپ کو مضبوط کر رہے ہیں، ہم کہہ رہے ہیں بتائیں آپ کے امور میں کون مداخلت کر رہا ہے، چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ ہماری غلطی تھی نظرثانی درخواست دائر کی، پیمرا میں فیصلہ ہوا تھا نظرثانی میں جائیں گے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ جواب نہیں دے رہے تو ہم آڈر کریں گے، سلیم بیگ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے، مگر جانا ہم نے وہیں ہے، آپ ہمت پکڑیں بتادیں نظرثانی میں جانے کا کس نے کہا تھا، پیمرا میں منظوری ہوئی تو وہ کہاں ہے؟

چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے جواب دیا کہ منظوری تحریری نہیں زبانی تھی، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ زبانی فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔

دریں اثنا عدالت نے ڈائریکٹر لا پیمرا کو بلا لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سچ نہیں بول رہے آپ ہی بتا دیں، نظرثانی کا کس نے کہا تھا؟ ڈائریکٹر لا پیمرا نے جواب دیا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون پڑھیں کیا پیمرا میں زبانی فیصلہ ہو سکتا، ہم آپ کو آج آپ کا قانون پڑھائیں گے۔

اس دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ڈائریکٹر لا پیمرا کو سیکشن 5 پڑھا دیا، بعد ازاں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ پڑھی ہوتی تو یہ نہ کہتے کہ تحریری فیصلہ کا کہیں نہیں لکھا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں نظر ثانی کا پتا ہی نہیں، کیسے دائر ہوئی، کوئی پراسرار قوتیں تھیں جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کروائی۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر نظرثانی کا تحریری فیصلہ نہیں ہوا تو آپ کی نظرثانی درخواست وجود ہی نہیں رکھتی، آپ تو پھر صرف ہمارا وقت ضائع کرنے آئے تھے، 3 حکومتوں میں آپ چیئرمین پیمرا رہ چکے، تینوں حکومتیں آپ سے خوش نہیں۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ نظرثانی درخواست پر دیکھیں کس کے دستخط ہیں، سلیم بیگ صاحب درخواست پر یہ آپ کے دستخط ہیں، لکھا ہوا ہے آپ اپنے اختیارات کا استعمال کر کے اس کی منظوری دی، آپ دوسروں کے کندھوں پر بندوق نہ چلائیں، ذمہ داری لیں یہ نظرثانی آپ نے دائر کی، اللہ آپ کو لمبی عمر دے آپ کس سے ڈرتے ہیں؟

چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے جواب دیا کہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اللہ سے ڈرتے ہیں تو ہماری عمروں میں کوئی بھی دن آخری ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پہلے آپ نے کہا نظر ثانی دائر کرنے کے لیے زبانی اراکین سے کہا، ریکارڈ بتا رہا ہے نظر ثانی دائر کرنے کے لیے آپ کا اپنا فیصلہ تھا، بتا دیں کس سے ڈرتے ہیں؟

چیئرمین پیمرا نے جواب دیا کہ صرف اللہ سے ڈرتا ہوں، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پھر بتا دیں کس کے کہنے پر نظر ثانی دائر کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعظم ،سابق آرمی چیف اور سابق چیف جسٹس کو تحریری طور پر ابصار عالم نے آگاہ کیا، اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے، جو بھی کرسی سے اترتا ہے کہتا ہے میں مجبور تھا، ہر کرسی سے اترنے والا وزیر اعظم کہتا ہے میں مجبور تھا، اس وقت وزیر اعظم تو نواز شریف تھے، شاید اس وقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تھے۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ آپ کی مہر کے ساتھ حکومت پاکستان بھی لکھا، آپ حکومت کیسے ہیں، سلیم بیگ آپ کچھ پڑھے لکھے تو ہیں نا، آپ کچھ تو بتائیں آپ کو اپنے نام کا بھی پتا نہیں، آپ پیمرا کا قانون تو پڑھ لیں ہم آپ کو کتاب بھیج دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سلیم صاحب آپ خود بتا دیں اس کے جواب میں کیا لکھیں جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ میں نے دیگر ممبرز کی مشاورت سے نظرثانی کا فیصلہ کیا، پیرا گراف 35 کی حد تک نظرثانی میں آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے چیئرمین پیمرا کی جانب سے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ مسٹر آپ ایک ادارے کی آزادی میں مداخلت نہ کریں، آپ بولیں گے تو لگے گا پیمرا آپ کے احکامات پر چلتا ہے۔

چیف جسٹس نے دوبارہ چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پیراگراف 35 کی بات کرتے ہیں اس کا ذکر آپ کی درخواست میں نہیں، اب بتائیں کیوں نظرثانی درخواست دائر کی تھی؟ آپ نہیں بولتے تو ہم سخت جملہ لکھوائیں گے۔

چیف جسٹس کی جانب سے سرزنش پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے آپ کو کوئی توہین جاری نہیں کی،حکومت آپ کے کنڈکٹ کا جائزہ لے گی، شاید آپ ہی حکومت کے لیے فیورٹ رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے چیئرمین پیمرا کسی اور کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہوئے۔

کیبل آپریٹر کے پاس انٹیلی جنس ادارے کے لوگ جاتے تھے، ابصار عالم

دریں اثنا عدالت نے ابصار عالم کو روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میرے کچھ سوالات ہیں آپ سے، آپ کچھ خطوط کی بات کر رہے ہیں، آپ نے لکھا کہ میڈیا میں کچھ سرکش عناصر تھے۔

ابصار عالم نے جواب دیا کہ کیبل آپریٹر کے پاس انٹیلی جنس ادارے کے لوگ جاتے تھے، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں اگر اس وقت وزیر اعظم ہوتا تو انکوائری کرواتا یا وزیر اعظم کو کہتا کہ پیمرا خود ایکشن لے۔

ابصار عالم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہمارے پیمرا کے رکن کو ایک کال آئی جو ریکارڈ ہوئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فون کرنے والے کا نام بتائیں؟

ابصار عالم نے جواب دیا کہ میں کنفرم نہیں کر سکتا کیونکہ بعض اوقات نام بدل کر فون کیا جاتا ہے، چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ تحریری جواب پڑھیں۔

ابصار عالم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میرے خلاف 3 ہائی کورٹس میں درخواستیں آئیں، مجھے لاہور ہائی کورٹ نے 18 دسمبر کو بطور چیئرمین پیمرا ہٹا دیا گیا، آپ نے کہا سچ سامنے لے کر آئیں اس لیے میں لے آیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو بطور شہری گھر میں بیٹھ سکتے ہیں، آپ نے خود کہا مجھے بلایا جاتا تو میں یہ بات کرتا، ہم نے تمام شہروں کو کہا کہ کوئی بھی آکر تفصیل بتا سکتا ہے۔

ابصار عالم نے کہا کہ نجم سیٹھی نے پروگرام میں کہا ادارہ جاتی کرپشن ہوتی ہے، مجھے زبانی احکامات دیے جاتے تھے کہ نجم سیٹھی کو ہٹا دیں، مجھے اسی وجہ سے ہٹایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ چیئر مین پیمرا کہہ رہے ہیں کوئی دباؤ نہیں آیا، ابصار عالم نے جواب دیا کہ یہ تو خوش قسمت انسان ہیں پھر۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر کل سرکار کوئی کمیشن بنائے تو کیا آپ اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے، پھر کمیشن ان کو بھی بلائے جن پر آپ الزام لگائیں گے، جن پر الزام لگایا گیا ان کو بھی جرح کرنے کا حق ہے۔

ابصار عالم نے جواب دیا کہ میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ ان کے نام کمیشن میں لوں گا، اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جن صاحب کا نام آیا ہو ان کو بلایا گیا تو آپ کو بھی ان پر جرح کرنے کا حق ہوگا۔

ابصار عالم نے بتایا کہ صحافیوں میں یہ مشہور تھا کہ جس نے میرے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی وہ ایجنسیوں کا بندہ ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے چئیرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ آپ پرانے بیوروکریٹ ہیں کبھی آپ کے خلاف کوئی درخواست ہوئی؟ سلیم بیگ نے جواب دیا کہ 5 رکنی کمیٹی نے مجھے بطور چئیرمین پیمرا تعینات کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ابصار عالم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے نظام کو بے نقاب کیا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک فاشسٹ نے جرمنی کے ذریعے دوسری جنگ عظیم شروع کروا دی، پاکستان میں اکثریت مسلمان رہتے ہیں لیکن سچ کوئی نہیں بولتا، سلیم بیگ صاحب آپ کے دل میں کھٹک رہا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے سوچا ہوگا میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جاؤں اس لیے نظر ثانی دائر کردی، یہاں کوئی سچی گواہی نہیں دیتا، پبلک آفس ہولڈر اس وقت سچ بولتا ہے جب کرسی سے اتر جاتا ہے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست سپریم کورٹ میں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی گئی، مقدمہ بحالی کی درخواست کیوں نہیں دی گئی، انسان کو آخری دم تک جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔

ابصار عالم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جب ایک کال آئی تو میں نے آرمی چیف کو خط لکھا تھا، پھر جنرل بلال نے مجھ سے خط کے حوالے سے رابطہ کیا۔

ہم شیخ رشید کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ

دریں اثنا شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شیخ رشید سے رابطہ نہیں ہو رہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ میں چلے سے واپس آ گیا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ ہم شیخ رشید کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شیخ رشید آپ سے رابطے میں نہیں تو درخواست واپس لینے کا کس نے کہا؟ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے جواب دیا کہ مجھے شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی نے ہدایات دی۔

چیف جسٹس فائز نے ریمارکس دیے کہ امان اللہ کنرانی اب وزیر ہیں وہ آپ کو ہدایات نہیں دے سکتے، آپ کب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہیں؟ آپ کا لائسنس منسوخ نہ کر دیں؟ شیخ رشید کا کسی کو پتا ہے؟ کیا وہ جیل میں ہیں؟ شیخ رشید یہاں کیوں نہیں ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ شیخ رشید میڈیا پر آ رہے ہیں، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میڈیا تو یہاں بیٹھا ہوا ہے، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کا ان سے رابطہ نہیں تو درخواست واپس کون لے رہا ہے؟ ہم اس میں نوٹس جاری کریں گے۔

کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی درخواست دائر کی؟ چیف جسٹس فائز عیسیٰ

دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل کو روسڑم پر بلا لیا گیا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ تو ایک آزاد ادارہ ہیں، کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی دائر کی جوکہ اب واپس لینی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس وقت الیکشن کمیشن کا سربراہ کون تھا، وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ سردار رضا اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اب عملدرآمد رپورٹ دی ہے اس میں کیا ہے؟ دکھائیں کیا عملدرآمد کیا گیا؟ آج کل وکالت کم لفاظی زیادہ ہو رہی ہے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن کو تحریک لبیک کے ذمہ داروں کے نام کے ساتھ ’حافظ‘ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ ایک آئینی ادارے میں انہیں حافظ کیوں کہہ رہے ہیں، آپ لوگوں سے مساوی سلوک نہیں کرتے، آپ نے عملدرآمد رپورٹ میں جو کچھ لکھا وہ فیصلے سے پہلے کا ہے، ہمارے فیصلے کے بعد کیا اقدامات اٹھائے وہ بتائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک لبیک کو آئی فنڈنگ کی تفصیل میں ایک بھی راونڈ فگر نہیں، ظاہر ہوتا ہے یہ فنڈز بیرون ملک سے ہی آئے تھے جو کرنسی تبدیل کر کے ایک بھی راونڈ فگر نہیں بنا۔

وکیل الیکشن کمیشن اگر کوئی 1820 روپے دینا چاہتا ہے تو ہم اسے نہیں کہہ سکتے کہ پورے 1800 دو، وقت دیا جائے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ آپ ٹی ایل پی کی وکالت کر رہے ہیں، چیف جسٹس کا الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ نے عملدرآمد نہ کیا تو بتائیں ہم کیا کریں گے جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ میں یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ ہم عملدرآمد نہیں کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور میرا خیال ہے انہیں اس بات کا ادراک ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ ایک ہی دن آئینی اداروں نے نظرثانی درخواستیں دائر کیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ چار سال بعد نظرثانی درخواست مقرر ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا آپ اس حسن اتفاق پر شعر ہی سنا دیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بات نکلے گی تو بڑی دور تلک جائے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ فلاں کو جیل میں ڈال دو، فلاں پارٹی پر پابندی لگا دیں، ہمارے ساتھ غلط بیانی کی گئی، ایک منظم طریقے سے ملک کے ادارے تباہ کیے گئے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ ٹی ایل پی کی وکالت کر رہے ہیں، اب انتخابات آنے والے ہیں اور اچانک پورا ماحول بن جاتا ہے، یہ سب حسن اتفاق ہی ہے کیا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ٹی ایل پی سے متعلق رپورٹ کس کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہے، آپ اپنے ادارے کے بجائے کسی اور کی وکالت کر رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ایک ڈونر کے بجائے کسی اور ڈونر نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن ایکٹ پر عمل کیا گیا، آئینی ادارہ تو کسی اور کا دفاع کر رہا ہے، ٹی ایل پی نے 33 فیصد آمدن کا ذریعہ بھی نہیں بتایا۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ میرے خیال میں الیکشن کمیشن کو ٹی ایل پی کے اثاثوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی تشکیل دے کر عدالت کو دھوکا دینے کی کوشش کی، اگر ہم الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دیں تو آپ کو اچھا لگے گا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن ملک کے ساتھ مخلص ہے؟ چیف جسٹس ملک کیساتھ مخلص ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ باقاعدہ سسٹم کے تحت ادارے تباہ کیے جائیں تو کوئی ملک سے کیا مخلص ہو گا، جن کی تحقیقات ہونی تھیں ان کی وکالت الیکشن کمیشن کے وکیل کر رہے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہر سال ہر جماعت کی فنڈنگ کی تحقیقات ہوتی ہیں؟ الیکشن کمیشن کی اپنی شفافیت ہو گی تو ہی شفاف انتخابات کروا سکے گا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انشااللہ شفاف انتخابات کرائیں گے جس پر چیف جسٹس نے انہیں خبردار کیا کہ موضوع کو تبدیل نہ کریں۔

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع اور اینٹیلی جنس کی نظر ثانی درخواستیں خارج کردیں جہاں یہ درخواستیں واپس لینے کی بنیاد خارج کی گئیں۔

اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔

چیئرمین پیمرا نے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، حکمنامہ

سپریم کورٹ نے اعجاز الحق کی حد تک نظرثانی کی درخواست نمٹاتے ہوئے حکمنامے میں کہا کہ اعجاز الحق نے آئی ایس آئی رپورٹ میں ذکر ہونے پر نظرثانی درخواست دائر کی۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ اعجاز الحق نے بیان حلفی دیا ہے جس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اعجاز الحق کی درخواست نمٹائی جاتی ہے۔

عدالت نے اس کے علاوہ سماعت میں دیگر امور پر حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک سے متعلق رپورٹ پیش کی، رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک نے کچھ فنڈز فراہم کرنے والوں کی تفصیل مہیا نہیں کی۔

انہوں نے حکمنامے میں لکھوایا کہ یہ حیران کن ہے کہ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کو کچھ غیر قانونی نہیں لگا، الیکشن کمیشن نے پندرہ لاکھ کی فنڈنگ کو ’پی نٹ‘ کہا، کمیشن نے معاملے کا قانون کے مطابق دوبارہ جائزہ لینے کی مہلت مانگی۔

اس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے تین ماہ کی مہلت مانگی جس پر اسے ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے، آپ یہ سب الیکشن سے پہلے پہلے کریں۔

حکمنانے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے بیان حلفی جمع کرایا، بیان حلفی میں ایک انفرادی شخص اور ان کے نامعلوم ماتحت اہکاروں پر سنگین الزامات عائد کیے۔

حکمنامے میں پیمرا وکیل سے پوچھا گیا کہ وہ ابصار عالم کے الزامات پر کیا کہیں گے جس پر پیمرا کے وکیل ایس اے رحمٰن نے کہا انہیں کاپی ہی آج ملی، پیمرا کے وکیل سے پوچھا گیا کہ عملدرآمد رپورٹ میں فیصلے پر عمل کہاں ہے، جس پر انہوں نے کہا وہ اس عدالت کے سامنے دلائل نہیں دینا چاہتے۔

حکمنامے کے مطابق چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے پوچھا گیا کہ نظرثانی کی درخواست کیوں دائر کی جس پر انہوں نے متضاد بیانات دیے، چیئرمین کی توجہ پیمرا قانون کے سیکشن پانچ کی جانب دلائی گئی۔

حکمنامے میں چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپ کی مہر پر نام کے ساتھ بیگ موجود نہیں اور چیف جسٹس کا حکمنامہ میں نام سے ’بیگ‘ کا لفظ ہٹانے کی ہدایت کی۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ چیئرمین پیمرا سے پوچھا گیا انہوں نے نظرثانی درخواست کیوں دائر کی، چیئرمین پیمرا نے عدالت کو گمراہ کرنے اور معلومات چھپانے کی کوشش کی۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ خارج کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے حقائق پر کسی کو بھی بیان حلفی کے ساتھ بیان جمع کرانے کی اجازت دی تھی۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جواب طلب کر لیے تھے۔

گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 2017 میں دیے گئے دھرنے سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک ’خصوصی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دے دی گئی ہے۔

فیض آباد دھرنا

خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے کئی برس قبل اپنے فیصلے میں وزارت دفاع اور تینوں افواج کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اپنی کمانڈ کے اہلکاروں کو سزا دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی حکومت کو نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کرنے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی تھی جہاں 2017 میں 20 روزہ دھرنے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں زندگی مفلوج ہونے اور عوام کو تکلیف پہنچانے پر متعدد سرکاری محکموں کے خلاف بھی منفی شواہد پائے گئے تھے۔

سپریم کورٹ نے نومبر 2018 میں فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فروری 2019 میں کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا۔

بعد ازاں اپریل 2019 میں وزارت دفاع کے توسط سے اس وقت کی وفاقی حکومت، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی)، انٹروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں