لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

دنیا نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور وہاں جنم لینے والے انسانی المیے پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس جنگ کو روکنے کی اپنی ذمہ داری میں واضح طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ ایک ایسے عالمی ادارے کی ناکامی ہے جس کی بنیادی ذمہ داری ہی بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔

جنگ بندی یا انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کا مطالبہ کرنے والی قراردادوں کی عدم منظوری نے اقوام متحدہ کے اراکین میں اس تقسیم کو بے نقاب کر دیا ہے جس کے سبب یہ ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا تھا۔ عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکا کی غیر مشروط حمایت سے اسرائیل کو اپنی وحشیانہ فوجی مہم جاری رکھنے کے لیے کھلی چھوٹ مل گئی۔

سلامتی کونسل کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس نے بھاری اکثریت سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کی منظوری دی۔ صرف امریکا اور مٹھی بھر ممالک نے ہی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اگرچہ یہ قرارداد اخلاقی اور سیاسی وزن رکھتی ہے اور اس کا مقصد اسرائیل اور اس کے حامیوں پر سفارتی دباؤ بڑھانا ہے، لیکن یہ کسی کو پابند نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرارداد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتی۔

یہ پیش رفت امریکا کی بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی کو ظاہر کرتی ہیں کیونکہ اس کے متعدد مغربی اتحادی فوری جنگ بندی کی حمایت کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں بعض یورپی ممالک نے انسانی بحران اور فلسطینیوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے وہیں امریکا نے اسرائیل سے بمباری بند کرنے یا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی اقدامات کے تباہ کن نتائج کا امریکا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کے حکام نے بارہا اعلان کیا کہ غزہ میں پھنسے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں پر اسرائیلی تشدد دراصل اجتماعی سزا ہے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی شراکت داروں نے اسرائیل پر حملے کے لیے حماس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا لیکن پوری آبادی پر اسرائیل کی کارپٹ بمباری کو اسرائیل کے لیے ’اپنے دفاع کے حق‘ کے طورپر تسلیم کیا گیا۔

انہوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی اموات پر کسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان لوگوں کو حماس کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ فلسطینیوں کو انسان نہ سمجھنے کی ایک مثال ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے تو فلسطینی ہلاکتوں کے اعداد و شمار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں فلسطینیوں کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ جب امریکا نے شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرنا شروع کیا تو یہ مذمت بہت ناکافی تھی اور تب تک بہت دیر بھی ہوچکی تھی خاص طور پر ان ھالات میں جب اس نے جنگ بندی کی مخالفت جاری رکھی۔

اس پیش رفت نے امریکا کی زیر قیادت مغربی ممالک کی منافقت کو آشکار کیا ہے۔ مغربی رہنماؤں نے یوکرین کی جنگ میں روسی فوجی کارروائیوں اور یوکرین میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی تھی لیکن انہوں نے غزہ پر اس اصول کو لاگو نہیں کیا۔

یوروپی یونین کمیشن کی صدر اُرسلا وان ڈیر لیین نے ایک مرتبہ روس کی جانب سے ’شہری انفراسٹرکچر پر حملوں‘ کو ’دہشتگردانہ کارروائی‘ قرار دیا تھا جس کا مقصد لوگوں کو پانی اور بجلی سے محروم کرنا تھا۔ لیکن نہ تو انہوں نے اور نہ ہی کسی اور مغربی رہنما نے اسرائیل کی طرف سے غزہ کو بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی سپلائی بند کرنے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا۔ کسی مغربی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وائٹ فاسفورس کے استعمال کی بھی مذمت نہیں کی۔

جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کے حملوں کی بھی مغرب کی جانب سے کوئی مذمت نہیں کی۔ اس حملے میں سیکڑوں لوگ مارے گئے اور اسرائیل نے شہریوں کی ہلاکتوں کو ’جنگ کا المیہ‘ قرار دیتے ہوئےاس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

مغربی ممالک انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر دوسرے ممالک کو مسلسل لیکچر دیتے ہیں لیکن انہوں نے اسرائیلی مظالم اور نسل کشی کے اقدامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار کا یہ مظاہرہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی فکر ہمیشہ سے جانبدارانہ رہی ہے۔ اس کی تنقید عام طور پر اپنے مخالفین پر ہوتی ہے جبکہ دوست ممالک کو تنقید سے بچایا جاتا ہے۔

جرمنی اور فرانس نے فلسطینیوں کے لیے اظہارِ ہمدردی کو جرم قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے فلسطین کی حمایت میں ریلیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس سے ان کے جمہوری طرز عمل کا مذاق بنا اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کی حقیقت بھی سامنے آگئی۔ امریکا میں یونیورسٹیوں کو عطیات دینے والوں نے دھمکی دی کہ وہ ان یونیورسٹیوں کی فنڈنگ ​​بند کر دیں گے جہاں طلبہ نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی تھیں۔

دی گارڈیئن کے مطابق میگزین کے ایڈیٹرز سے لے کر ہولی ووڈ کے ایجنٹوں تک کئی ممتاز امریکی شخصیات کو فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر برطرفی یا سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ میں فلسطینیوں کے حامی کارکنوں کو یہود مخالف ہونے کے بہانے پکڑا گیا۔ برطانیہ کی ہوم سیکریٹری سویلا بریورمین نے فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مارچ کو ’نفرت مارچ‘ قرار دیا، انہوں نے ان مظاہروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور فلسطینی پرچم لہرانے کو جرم قرار دینے پر زور دیا۔ یہ سب کچھ ان نام نہاد جمہوریتوں میں ہوا جو گلوبل ساؤتھ کے ممالک پر تہذیبی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مغربی میڈیا کا کردار بھی ان کی حکومتوں کی طرح یک طرفہ رہا ہے اور وہ فلسطینی عوام کے مصائب کو نظر انداز کررہا ہے۔ بڑے میڈیا نیٹ ورکس نے اسرائیلی پروپیگنڈے کو ہی فروغ دیا اور اس جنگ کو اسرائیل کے اپنے ’دفاع کے حق‘ کے طور پر پیش کیا۔ ٹی وی اینکر بھی اسی رجحان پر کاربند رہے۔ وہ جن افراد کا انٹرویو کرتے ان سے یہی پوچھتے کہ کیا وہ حماس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس دوران وہ اسرائیل کے قتل عام کو نظر انداز کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

مغربی چینلز کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی سب سے واضح مثال حماس کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے والی بے بنیاد خبر تھی۔ جب غزہ میں ہلاکتوں کو نظر اندازکرنا مشکل ہوگیا اور میڈیا نیٹ ورکس کے تعصب پر تنقید ہونے لگی تب ہی بی بی سی جیسے نیٹ ورکس اپنے طرز عمل میں کچھ تبدیلی لےکر آئے۔ دریں اثنا، مغربی سوشل میڈیا کمپنیوں نے فلسطینی مواد کو سنسر کرنا شروع کردیا جس کی تصدیق ایمنسٹی سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی کی ہے۔

مسلم ممالک کے ردعمل کو دیکھا جائے تو یہ نہ ہی زمینی صورتحال کے مطابق تھا اور نہ ہی اپنے لوگوں کی توقعات کے مطابق۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حوالے سے اقوام متحدہ میں سفارتی سرگرمیوں کے علاوہ یہ ممالک اسرائیل کی مذمت کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کئی جنوبی امریکی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کیے لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے عرب ممالک میں سے صرف اردن اور بحرین نے ہی ایسا کیا۔

کیا اس سب کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے؟ اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ہاں اس لیے کیونکہ عالمی برادری غزہ میں قتل عام کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ نہیں اس وجہ سے کیونکہ پوری دنیا میں، مغرب سے لے کر مشرق تک، لوگ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔

احتجاجی ریلیوں میں غزہ میں جاری انسانی المیے پر عوامی غم و غصے کا اظہار ان ممالک کی حکومتوں کی طرف سے اختیار کیے گئے متعصبانہ مؤقف کے بالکل برعکس تھا۔ امریکا میں رائے عامہ بھی بائیڈن انتظامیہ کے مؤقف سے بالکل مختلف تھی۔ ڈیٹا فار پروگریس کے ایک پول کے مطابق 66 فیصد امریکی ووٹروں نے جنگ بندی کی حمایت کی ہے۔

1948ء کے بعد فلسطینی عوام پر آنے والی سب سے بڑی تباہی کے نتائج خطے اور دنیا کے لیے بہت دور رس ہوں گے۔ میں اسے حوالے سے آئندہ کسی کالم میں وضاحت کروں گی۔


یہ مضمون 6 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں