’قدوس بزنجو سے مردم شماری 2023 کے نتائج کی جبری منظوری لی گئی‘

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2023
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

سینئر وکیل کامران مرتضیٰ نے سپریم کورٹ کے سامنے انکشاف کیا ہےکہ 2023 کی قومی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دینے کے لیے بلوچستان کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کو ’مجبور‘ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے 29 اگست کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے مردم شماری کے نتائج میں صوبے کی حتمی آبادی کی گنتی کو چیلنج کرنے سے متعلق پٹیشن خارج کردی تھی۔

اپیل کنندہ کی نمائندگی کرتے ہوئے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ مردم شماری کے آخری مرحلے تک بلوچستان کی آبادی 2 کروڑ 17 لاکھ کے قریب رپورٹ کی گئی، تاہم مردم شماری کرنے والے محکمے پاکستان ادارہ شماریات نے حتمی رپورٹ میں اس میں تقریباً 70 لاکھ کی کمی کر کے تعداد ایک کروڑ 48 لاکھ 90 ہزار ظاہر کی۔

پھر اگست میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے کم کی گئی تعداد کی منظوری دے دی۔

’جبری رضامندی‘

دوران سماعت جب بینچ نے نشاندہی کی کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نے سی سی آئی کے اجلاس میں مردم شماری کے نتائج کی توثیق کی تھی تو ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ رضامندی ’زبردستی‘ تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹی وی چینلز نے یہ خبر بھی نشر کی تھی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان 5 اگست کو ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔

جب جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعلیٰ کہاں تھے اور انہیں میٹنگ میں کون لے گیا تو وکیل نے جواب دیا کہ وہ سو رہے تھے اور انہیں جہاز کے ذریعے میٹنگ میں لے جایا گیا۔

بعد ازاں ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’ہلکے پھلکے انداز میں ریمارکس‘ دیے گئے تھے۔

کارروائی کے دوران وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آبادی کو کم نہ کیا جاتا تو بلوچستان کو قومی اسمبلی کی 10 اضافی نشستیں ملتیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے تجویز پیش کی کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت سی سی آئی کے فیصلے کو دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ انہوں نے یہ معاملہ سینیٹ میں اٹھایا تھا اور اراکین احتجاجاً واک آؤٹ بھی کر گئے تھے۔

وکیل نے مزید کہا کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے وقت سی سی آئی کی تشکیل ٹھیک نہیں تھی، انہوں نے مزید کہا کہ جب اجلاس بلایا گیا تو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتیں تھیں۔

آئین کے آرٹیکل 153 کے تحت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر سی سی آئی کا تقرر کرتا ہے، وزیر اعظم سی سی آئی کی سربراہی کرتے ہیں۔

کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی، وزیر بین الصوبائی رابطہ اور وزیر توانائی شامل ہوتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

9 اگست کو قومی اسمبلی کی تحلیل سے چند دن قبل 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری متنازع بن گئی، اس فیصلے سے عام انتخابات میں تاخیر ہوئی جب کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) جو اس وقت حکومت کا حصہ تھی، نے حتمی نتائج پر بھی اختلاف کیا۔

مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان قانون کے مطابق نئی حد بندی کرنے کا پابند تھا جب کہ اس وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد 90 روز کی آئینی مدت میں ممکن نہیں ہوسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں