سپریم کورٹ: غیرقانونی تارکین وطن کی بے دخلی کا کیس کھلی عدالت میں لگانے کا حکم

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2023
سپریم کورٹ میں دائر اِن چیمبر اپیل پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ میں دائر اِن چیمبر اپیل پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکی شہریوں کے بےدخلی کے خلاف دائر درخواست پر چیمبر اپیل میں رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے کھلی عدالت میں لگانے کا حکم دے دیا۔

رہنما پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد، چیئرمین این ڈی ایم محسن داوڑ اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں سمیت دیگر فریقین کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کی وطن واپسی روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر اِن چیمبر اپیل پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے سماعت کی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے رجسٹرار آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات کو مستردکرتے ہوئے غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیرملکی شہریوں کی وطن واپسی کے خلاف کیس کھلی عدالت میں لگانے کا حکم دیا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے مذکورہ درخواست اعتراضات لگا کر واپس کر دی تھی، بعد ازاں رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کی گئی تھی۔

درخواست کا متن

واضح رہے کہ افغان مہاجرین اور سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرنے والے افراد کی بے دخلی کے خلاف رواں ماہ یکم نومبر کو کئی سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے نگران حکومت کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والوں میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد، انسانی حقوق کے کارکن امینہ مسعود جنجوعہ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے چیئرمین محسن داوڑ، وکیل جبران ناصر، روحیل کاسی، سید معاذ شاہ، غزالہ پروین، وکیل ایمان زینب مزاری، احمد شبر، وکیل عمران شفیق، لیوک وکٹر اور سجل شفیق شامل تھے۔

ڈان ڈاٹ کام کو موصول درخواست کی کاپی کے مطابق غیر ملکیوں کی بے دخلی آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت چیلنج کی گئی تھی۔

درخواست میں نگران وزیراعظم کے ذریعے وفاق، سیکریٹری داخلہ کے توسط سے حکومت کی اپیکس کمیٹی، تمام چاروں صوبے اور اسلام آباد، چیف کمشنر برائے افغان مہاجرین اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین سمیت 15 افراد کو فریق بنایا گیا۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکیوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے سے تقریباً 44 لاکھ افغان باشندوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے جو وقتی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی 45 سالہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے جس میں مہاجرین، سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں اور یہاں تک کہ غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کی میزبانی میں توسیع کا عزم کیا گیا تھا، اسٹریٹجک اعتبار سے کیا گیا فیصلہ نگران حکومت کو حاصل آئینی اختیارات سے ماورا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ بے دخلی رضاکارانہ طور پر نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی افغان حکومت اس حوالے سے سہولت کاری کر رہی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ ان افراد میں سے کئی سردی اور بھوک کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتے ہیں، ان میں سے کئی پاکستانی شہری اور حقیقی مہاجرین بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے اپنی قانونی حیثیت ثابت کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ہوگا۔

مزید کہا گیا کہ بغیردستاویزات کے مقیم افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ غیرمنتخب کابینہ کے ذریعے کیا گیا ہے، جس نے غیرانسانی فیصلہ کیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے فیصلے میں غیر جانبدار زبان استعمال کی گئی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ لاکھوں افغان مہاجرین نشانہ بنیں گے جو حالات کے جبر کی وجہ سے پاکستان میں رہنے پر مجبور ہیں۔

سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی پریشان کن بات ہے کہ نگران حکومت انتخابات کرانے کا اپنا کام سرانجام دینے کے بجائے اسٹریٹجک فیصلے کر رہی ہے، جس کے نتائج اس ملک کے عوام کو بھگتنا ہوں گے۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ پر زور دیا کہ حکومت کی جانب سے غیرقانونی مہاجرین کو بے دخل کرنے کے لیے کیا گیا فیصلہ غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دے کر ختم کردے۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وفاق کو غیر ملکیوں کو گرفتار کرنے، واپس بھیجنے یا دوسرے طریقوں سے ہراساں کرنے سے روکا جائے جو یا تو مہاجرین یا سیاسی پناہ کے متلاشی ہیں اور ان کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت ہیں، افغان شہریت کا کارڈ (اے سی سی)، یواین ایچ سی آر کی جانب سے جاری کی گئی سیاسی پناہ کی درخواست یا اس کے شراکت داروں کی جانب سے جاری پری اسکریننگ سلپ موجود ہے۔

مزید کہا گیا کہ عدالت وفاق کو ہدایت کرے کہ وہ یو این ایچ سی آر اور اس کی شراکت تنظیموں کو رجسٹر کرنے، عمل میں تیزی لانے اور پاکستان میں مقیم غیرملکی شخصیات کی سیاسی پناہ کی درخواست کے فیصلے کی اجازت دے۔

درخواست گزاروں نے کہا کہ وفاق کو ہدایت کی جائے کہ وہ وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے ادارے وقتی طور پر پاکستان میں رہنے والے تمام افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے شروع میں نگران وفاقی حکومت نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم 11 لاکھ غیرملکیوں کے انخلا کا فیصلہ کیا تھا جو دہشت گردوں کو فنڈز اور سہولیات سمیت دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد، دوسرے مرحلے میں افغانستان کی شہریت رکھنے والے اور تیسرے مرحلے میں جن کے پاس رہائشی کارڈ ہیں، انہیں بے دخل کردیا جائے گا۔

فیصلے سے متعلق بتایا گیا تھا کہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے سنجیدہ خطرہ پیدا کردیا ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں سے ایک بڑی تعداد دہشت گردوں کو فنڈز دینے، سہولت فراہم کرنے اور اسمگلنگ میں ملوث ہے اور 7 لاکھ افغان شہریوں کے پاکستان میں رہائش کے اجازت ناموں کی تجدید نہیں کی گئی ہے۔

غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی کے لیے ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد یکم نومبر سے ملک بھر میں موجود بغیر سفری دستاویزات رہائش پذیر غیر ملکیوں کی بے دخلی کے لیے کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں