جس شام شہر کی گلیوں میں ستارے اترنے تھے، اُسی روز شہر کو ایک غیر متوقع آندھی نے آلیا۔ جشن کی تمام تیاریاں تہس نہس ہوگئیں اور میزبانوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

اُس روز ہمیشہ چمکنے دمکنے والے ستاروں کے چہروں پر بھی اداسی تھی۔ اسٹیڈیم میں موجود شاہ رخ خان، دپیکا پڈوکون، رنویر سنگھ، انوشکا شرما، آشا بھوسلے جیسے فنکار خاموش اور مایوس تھے۔ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور تنازعات کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔

سنہری ٹرافی آسٹریلیا کے نام ہوئی جس نے ٹورنامنٹ کی فیورٹ تصور کی جانے والی میزبان ٹیم بھارت کو یک طرفہ مقابلے میں شکست دے دی۔ جس لمحے کینگروز نے یہ اعزاز اپنے نام کیا، احمد آباد کے نریندرا مودی اسٹیڈیم میں مکمل خاموشی تھی۔ یہ وہی منظر تھا جس کی پیش گوئی آسٹریلوی کپتان اپنی پریس کانفرنس میں کرچکے تھے۔

آسٹریلیا آئی سی سی مینز ورلڈکپ کے فائنل میں بھارت کو 6 وکٹوں سے ہرا کر چھٹی بار کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بن گیا اور یوں بھارت کا عظیم الشان جشن منانے کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔

بھارتی شکست کی وجوہات کیا رہیں؟ اس پر بحث جاری ہے۔ کوئی سُست بلے بازی اور شبھمن گل کی پرفارمنس کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی آسٹریلیا پر دباؤ قائم رکھنے میں ناکامی کا حوالہ لاتا ہے، مگر یہ آج ہمارا موضوع نہیں۔ یہاں تک کہ پچ کی تبدیلی جیسے تنازعات اور گیند میں ڈیوائس نصب کرنے جیسی دلچسپ سازشی تھیوریاں بھی پیش کی گئیں۔

ہمارا موضوع وہ جشن ہے جو آسٹریلیا کی جیت کے بعد پاکستان میں بپا ہے۔ یہ شور شہر کی گلیوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر بلند ہورہا ہے۔ معاملہ صرف پاکستانی صارفین کی جانب سے آسٹریلیا کو سراہنے تک محدود نہیں، بھارت کو بھی آڑے ہاتھ لیا جارہا ہے۔ سابق پاکستانی کرکٹرز ہوں، صحافی، شوبز شخصیات یا پھر عوام، سب نے اپنے اپنے انداز میں تبصرے داغے۔ یوں بھارت کی شکست پر پُرلطف، کاٹ دار، طنزیہ تبصروں کا طوفان آگیا۔

ایک جانب انوشکا شرما اور ویرات کوہلی کی میمز شیئر کی جارہی ہیں تو دوسری جانب اختتامی تقریب میں نریندر مودی کی بے دلی پر لطیفے گڑے جارہے ہیں (واضح رہے کہ میمز میں ضرورت کے مطابق ایڈیٹنگ کی جاتی ہے، یہ حقیقی تصویر یا فوٹیج نہیں ہوتی)۔

دلچسپ نقطہ یہ ہے کہ ان طنزیہ تبصروں کا آغاز بھارت ہی سے ہوا تھا جہاں مودی مخالف تجزیہ کاروں نے ورلڈ کپ کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ آسٹریلیا سے شکست کے بعد ان تبصروں کی تعداد دگنی ہوگئی کیونکہ اب پاکستانی صارفین بھی بعد میں اس میدان میں کودے تھے۔

پاکستانیوں کے طنزیہ تبصروں پر دو طرح کا مؤقف سامنے آیا۔ ایک مؤقف پاکستان کے روشن خیال حلقوں کا تھا جنہوں نے اسے جذباتی ردعمل سے تشبیہ دیتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی۔ دوسرا مؤقف سوشل میڈیا پر موجود سنجیدہ بھارتی شائقین کی جانب سے آیا جنہوں نے پاکستانیوں کے اس ردعمل کو نفرت کا عکاس ٹھہرایا۔ دونوں ہی گروہوں کا خیال تھا کہ آسٹریلیا کی جیت پر پاکستانیوں کا جشن درحقیقت ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ کے مترادف ہے۔

شاید یہ مؤقف درست ہوکہ آسٹریلیا کی جیت یا بھارت کی ہار سے پاکستان کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں لیکن اگر ان دونوں پڑوسیوں کے تنازعات اور اختلافات کی طویل تاریخ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ جشن غیرمتوقع نہیں لگتا۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی سرد مہری نے کرکٹ کو بری طرح متاثر کیا۔ سرحدی اختلافات کا اثر براہِ راست کرکٹ ناظرین پر پڑا جنہوں نے پاک-بھارت ٹاکرے کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا۔ 1965ء ہو، 1971ء کی جنگ یا پھر ہو کارگل، جب جب کسی بڑے تنازعے کے بعد دونوں ٹیمیں آمنے سامنے آئیں، مقابلے نے کرکٹ میچ کے بجائے ایک جنگ کی سی شکل اختیار کرلی۔ کشمیر پر بھارتی قبضے نے بھی اس کیفیت کی شدت میں اضافہ کیا۔

الغرض اس کھیل سے جڑی جذباتیت کی تاریخ طویل ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کی آمد کے بعد جب ہر شخص کو اظہار کی قوت مل گئی تو اس معاملے میں مزید شدت آگئی۔ کرکٹ مقابلوں کے دوران دونوں ممالک کے ناظرین کی جانب سے سوشل میڈیا پر تابڑ توڑ حملے کیے جانے لگے۔ یہ وائرس پاک-بھارت میچز سے نکل کر عام میچز تک بھی پھیل گیا یعنی اب چاہے پاکستان انگلینڈ سے میچ ہارے، چاہے بھارت کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہو، دونوں پڑوسی ایک دوسرے کے خلاف پھلجڑیاں چھوڑنے سے نہیں چوکتے۔ البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس منفی چلن کی ذمہ داری پاکستان سے زیادہ بھارت پرعائد ہوتی ہے جس نے پہلے پہل اپنے میڈیا کی طاقت کو پاکستانی ٹیم اور ناظرین کی تضحیک کے لیے برتنا شروع کیا اور پھر اسے ایک صنعت کی شکل دے دی۔

’موقع ،موقع‘ کی گردان

اعداد وشمار دیکھے جائیں، تو ٹیسٹ اور ون ڈے میں اب بھی پاکستانی فتوحات زیادہ ہیں۔ البتہ آئی سی سی کے ٹورنامنٹس (ورلڈکپ ، چیمپیئنز ٹرافی) میں بھارت کا پلڑا بھاری رہا۔ اسی عنصر کو بھارتی میڈیا نے اپنی مارکیٹنگ کا محور بنا کر طنزیہ اشتہارات کی بھرمار کردی۔ ’موقع، موقع‘ نامی وہ اشتہار تو آپ کو یاد ہی ہوگا جسے ہر آئی سی سی ٹورنامنٹ سے قبل اچھی طرح پالش کرکے ری لانچ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی ناکامیوں کو ہائی لائٹ کرتا یہ طنزیہ اشتہار اس کثرت سے چلایا گیا کہ پاکستانی زچ ہوگئے۔ اس اشتہار کا منطقی ردِعمل اس روز سامنے آیا جب سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان ٹیم آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی جیت کر لوٹی اور اُن کے گھر پر بپا جشن پر ’موقع، موقع‘ کی بازگشت سنائی دی۔

بھارتی اسٹارز اور سابق کرکٹرز کا منفی رویہ

مین اسٹریم میڈیا کی طرح بھارت کو سوشل میڈیا پر بھی ہمیشہ فوقیت حاصل رہی جسے ایکس (ٹوئٹر) پر متحرک بھارتی شوبز اسٹارز نے مہمیز کیا۔ ان اسٹارز نے نہ صرف بھارتی ٹیم کی حمایت کا بیڑا اٹھایا بلکہ مخالف ٹیموں پر تنقید کے غلط چلن کو بھی بڑھاوا دیا۔ کچھ فنکار تو ایسے بھی تھے جو کئی قدم آگے بڑھ کر پاکستانیوں کی تضحیک پر اتر آئے۔ اس فہرست میں ایک نام معروف بھارتی اداکار آن جہانی رشی کپور کا بھی ہے۔

یہ چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کا واقعہ ہے۔ سرفراز احمد کی قیادت میں نوجوان پاکستانی ٹیم کا آغاز کچھ اچھا نہ تھا مگر کسی نہ کسی طرح یہ ٹیم فائنل تک پہنچ گئی جہاں ایک بار پھر اس کا سامنا بھارت کی مضبوط ٹیم سے تھا مگر فائنل میچ سے قبل رشی کپور نے ٹوئٹر پر ایک نیا محاذ کھول لیا۔ انہوں نے انتہائی سطحی بلکہ بھونڈے انداز میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے فائنل کے لیے ایک مضبوط پاکستانی ٹیم بھیجنے کا مطالبہ کر ڈالا۔

جب ان کے اس بچکانہ ٹوئٹ پر تنقید کی گئی تو ہڑبڑاہٹ میں وہ کچھ اور بہک گئے اور کچھ سوچے بغیر پاکستان پر دہشت گردی کا سنگین الزام دھر دیا۔ افسوس ناک امر یہ تھا کہ اس پروپیگنڈے کے لیے ممتاز بھارتی اداکار نے کرکٹ کا پلیٹ فورم چنا جسے ’جینٹلمین کا کھیل‘ کہا جاتا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ ٹورنامنٹ بھارت کی عبرت ناک شکست پر ختم ہوا اور ٹرافی پاکستان کے نام ہوئی۔

اس ضمن میں تازہ ترین مثال وریندرسہواگ کی ہے۔ گو وہ ماضی میں بھی پاکستان پر عامیانہ تنقید کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ ورلڈ کپ میں پاکستان کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے بعد انہوں نے جو ٹوئٹ کیا اس پر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے خاصی تنقید ہوئی۔ یہ ٹوئٹ دراصل اس جگت بازی ہی کی ایک کڑی تھی جسے سابق بھارتی کرکٹرز نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

عرفان پٹھان اور پڑوسی کی گردان

پاکستانی ٹیم کو اپنے سطحی لطیفوں اور متعصبانہ تبصروں کا نشانہ بنانے والے بھارتی کرکٹرز میں عرفان پٹھان کا نام سرِفہرست ہے۔ جس روز پاکستان کو کرکٹ میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑے، عرفان پٹھان ایکس پر ضرورت سے زیادہ چہکتے نظر آتے ہیں اور پڑوسی، پڑوسی کہہ کر پاکستانیوں کو خوب چڑاتے ہیں۔

پہلے ایشیا اور بعدازاں ورلڈ کپ کے دوران انہوں نے کئی بار پاکستانیوں کو طنز کا نشانہ بنایا۔ البتہ اس کی انتہائی شکل اس روز سامنے آئی جب افغانستان کے ہاتھوں گرین شرٹس کی شکست کے بعد وہ راشد خان کے ساتھ رقص کرتے دکھائی دیے۔ یہ منظر پاکستانی ناظرین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جس نے پاکستانی ناظرین کو بھارتی اور افغان ٹیم دونوں ہی سے کچھ اور متنفر کردیا۔

خیال رہے کہ عرفان پٹھان کے اپنے ہی ہم وطن، روشن خیال دانشور اشوک شیوان ان کے ٹوئٹس اور بیانات کو مودی کے انتہاپسند بھارت میں متعلقہ رہنے کی لاحاصل کوشش قرار دے چکے ہیں۔

بھارتی کرکٹ بورڈ کی ہٹ دھرمی

بھارتی کرکٹ بورڈ پیسے کی ریل پیل، اشتہارات اور اسٹار پاور کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ بورڈ بن چکا ہے۔ آئی سی سی کے فیصلوں پر بھی اس کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ اتنا طاقتور ہے کہ کسی بھی ٹورنامنٹ کو سبوتاژ کرسکتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ایشیا کپ ہے جس کا میزبان پاکستان تھا مگر بھارت نے انوکھے لاڈلے کا کردار ادا کرتے ہوئے ٹورنامنٹ کو تماشا بنا کر رکھ دیا۔

ایشیا کپ میں بی سی سی آئی کی ہٹ دھرمیاں عروج پر نظر آئیں۔ بھارتی ٹیم کا پاکستان آنے سے انکار، لاہور میں منعقدہ تقریب کی آخری وقت پر منسوخی، جرسی سے میزبان ملک کا نام غائب کردینا، کوئی ایک مثال ہو تو دی جائے۔ بی سی سی آئی کے سیکریٹری اور ایشین کونسل کے صدر جے شاہ کی ضد کا خمیازہ پاکستان کھلاڑیوں کے طویل، تھکا دینے والے سفری شیڈول کی صورت سامنے آیا جو پاکستان کی شکست اور ایشیا کپ میں بھارت کی فتح پر منتج ہوا۔

رضوان کی ٹوئٹ اور زینب عباس کی وطن واپسی

حالیہ ورلڈ کپ میں پیش آنے والے چند افسوسناک واقعات بھارت کی پاکستان دشمنی کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ اس خیال کو بھی تقویت دیتے ہیں کہ مودی جی کے بھارت میں اب کھیل اور فن، دونوں شعبوں پر قوم پرستی اور انتہاپسندی قابض ہوچکی ہے۔ اب یہاں امن اور رواداری کی کوئی گنجائش نہیں۔

زینب عباس کی اچانک وطن واپسی کا سبب وہ انتہاپسند قوتیں ہی تھیں جن کا بھارتی نظامِ حکومت پر قبضہ ہے۔ زینب کی واپسی کی وجہ مبینہ طور پر ان کی جانب سے ماضی میں کیا جانب والا ایک ٹوئٹ بنا۔

ایک ٹوئٹ اور تھا جس نے انتہاپسند بھارتیوں کو آگ بگولا کردیا تھا۔ یہ ٹوئٹ محمد رضوان کی جانب سے غزہ کی حمایت میں کیا گیا تھا۔ رضوان کا یہ اقدام بھارتی تجزیہ کاروں کو اتنا ناگوار گزرا کہ انہوں نے رضوان پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس فلسطین کی حمایت میں فقط ایک ٹوئٹ بھارتیوں کو گراں گزر رہا تھا، اسی فلسطین کی حمایت میں اٹھنے والی آواز ورلڈ کپ فائنل میں یوں گونجی کہ کروڑوں افراد ششدر رہ گئے۔

حرف آخر

کرکٹ کوئی جنگ نہیں۔ یہ محض ایک کھیل ہے اور کھیلوں کا مقصد مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ اسپورٹس مین اسپرٹ کا تقاضہ ہے کہ آسٹریلیا کی جیت کے ساتھ ساتھ بھارتی ٹیم کی عمدہ پرفارمنس کی بھی کھلے دل سے تعریف کی جائے۔ پاکستانی ناظرین وقتاً فوقتاً اس کشادہ دلی کا ثبوت دیتے ہیں۔ سرحد کے اِس پار بھی دھونی اور کوہلی کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری پاکستان مخالف مہمات، ان کے مبصرین کے تلخ تبصرے اور سب سے بڑھ کر بھارتی کرکٹ بورڈ کے منفی ہتھکنڈوں کے بعد آج پاکستانیوں کے پاس آسٹریلیا کی جیت کا جشن منانے کے کئی اسباب ہیں جنہیں سہولت سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں