’کراچی کی 90 فیصد عمارتوں میں آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں‘

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2023
ملک بھر میں آتشزدگی کے واقعات کی وجہ سے ہر سال 15 ہزار لوگ اپنی جانیں گنواتے ہیں اور ایک کھرب سے زائد کا نقصان ہوتا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
ملک بھر میں آتشزدگی کے واقعات کی وجہ سے ہر سال 15 ہزار لوگ اپنی جانیں گنواتے ہیں اور ایک کھرب سے زائد کا نقصان ہوتا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں منعقدہ ایک سمپوزیم میں سٹی پلانرز، انجینئرز اور بلڈنگ پلانز کے ماہرین نے اس بات پر یقین ظاہر کیا ہے کہ کراچی کے تقریباً 90 فیصد رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا نظام موجود نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سمپوزیم میں موجود تمام ماہرین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) جیسے ریگولیٹری اداروں کی مجرمانہ غفلت نے شہر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ماہرین نے اعداد و شمارکا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں آتشزدگی کے واقعات کی وجہ سے ہر سال 15 ہزار لوگ اپنی جانیں گنواتے ہیں اور ایک کھرب سے زائد کا نقصان ہوتا ہے، یہ حادثات بنیادی طور پر شہری علاقوں میں پیش آتے ہیں جہاں اکثر رہائشی، صنعتی اور تجارتی عمارتیں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی گئی ہیں۔

فائر پروٹیکشن آف پاکستان (ایف پی اے پی) کی جانب سے منعقد کردہ نیشنل فائر سیفٹی سمپوزیم اینڈ رسک بیسڈ ایوارڈز میں آتشزدگی کے بڑھتے واقعات کے چیلنجز، ممکنہ بچاؤ اور دستیاب حل کے حوالے سے یہ انتباہ دیا گیا۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر کنکریٹ اسٹرکچرز میں اضافے سے سیکڑوں لوگوں کی جانیں خطرے میں ہیں اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آگ سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کے قوانین پر مؤثر عمل درآمد کروانے کے لیے تیزی سے اقدامات کرے ’اس پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘۔

سمپوزیم سے سندھ کے نگران وزیر برائے صنعت، تجارت اور ریونیو یونس ڈھاگا، نگران وزیر کھیل و ثقافت اور یوتھ افیئرز ڈاکٹر جنید علی شاہ، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، ریسکیو 1122 کے حکام اور کارپوریٹ سیکٹر کے نمائندوں نے خطاب کیا۔

روک تھام، تحفظ اور آپریشنل پالیسی لندن کے ڈپٹی کمشنر اور آپریشنل ڈائریکٹر ڈومینک ایلس اور کنفیڈریشن آف فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشنز-ایشیا (سی ایف پی اے-اے) کے روب لیولین نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے سمپوزیم سے خطاب کیا۔

یونس ڈھاگا نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہاں ایسے ماہرین کو سنا جنہوں نے اعداد و شمار کا حوالہ دیا کہ 70 فیصد عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کا نظام موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ تقریبا 90 فیصد تک ہوگی لیکن آج میں اس سمپوزیم میں سیکریٹری آف انڈسٹریز اور ایم ڈی سائٹ (سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ)کو صرف اپنے منصوبے پر غور کرنے کے لیے لایا ہوں، اگلے ہفتے ہماری سائٹ بورڈ کی میٹنگ ہے جہاں ہم آگ سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کے لیے آج یہاں زیر بحث تمام تجاویز کو منظور کریں گے، سندھ میں تقریباً 30 ہزار سے 40 ہزار صنعتی اسٹرکچرز ہیں اور ہم کراچی سے شروعات کریں گے۔

ڈاکٹر جنید علی شاہ نے کہا کہ زیادہ تر ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں فائر فائٹنگ سسٹم یا ایمرجنسی فائر ایگزٹ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی غفلت کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ آتشزدگی کے واقعات میں بھاری نقصان ہوتا ہے، اگر نظام اپنی جگہ پر رہے تو آگ لگنے کے ان واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔

ایف پی اے پی کے صدر کنور وسیم نے کہا کہ آگ سے متعلقہ سانحات کی زیادہ تعداد بھی ریگولیٹری اداروں اور عمل درآمد کرنے والے حکام کو جگانے میں ناکام رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے تعاون سے پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی) کی تیار کردہ بلڈنگ کوڈ فائر سیفٹی پریونشن کو 2016 میں منظور کیا گیا لیکن سات سال گزرنے کے بعد بھی ہم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے۔

کنور وسیم نے بتایا کہ اس ضابطے کی ایک بھی شق کراچی میں نافذ نہیں ہے، یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ایس بی سی اے جیسا ریگولیٹری ادارہ فائر سیفٹی کی بھی فکر نہیں کرتا اور نہ ہی ان لوگوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے جو اس کی روک تھام اور اس سے تحفظ چاہتے ہیں۔

ایف پی اے پی کے ڈائریکٹر ٹریننگ اور پروجیکٹس طارق معین نے کہا کہ عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کے زیادہ تر آلات ناکارہ ہیں اور انہیں صرف قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی ری فلنگ مطلوبہ معیارات پر پورا نہیں اترتی اور ان کی فٹنس کی تصدیق کرنے اور ان کے مؤثر ہونے کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے کوئی بھی نظام موجود نہیں ہے۔

فائر سیفٹی کے آلات فراہم کرنے والی کمپنی حسین حبیب کے فواد بیری نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں ہونے والے آتشزدگی کے ان واقعات میں 15 ہزار اموات اور ایک کھرب روپے سے زائد کے مالی نقصان کے علاوہ تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار افراد جھلس کر زخمی ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں