بلاول نے ’پوری طرح سیاسی تربیت‘ حاصل نہیں کی، انہیں وقت لگے گا، آصف زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے آئندہ عام انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بننے کی پیش گوئی کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے ابھی پوری طرح سے ’سیاسی تربیت‘ حاصل نہیں کی تاہم تربیت کر رہے ہیں لیکن ابھی انہیں وقت لگے گا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ الیکشن 8 فروری کو ہوں گے، اسی لیے ہم جلدی نکلے ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے پورا پاکستان کور کرنا ہے، ہر جگہ جانا ہے اور ہماری مہم شروع ہو چکی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ عمران خان کے رہنے سے پاکستان کو بڑا نقصان تھا، پورا پاکستان دنیا میں تنہا رہ گیا تھا، مجھے نہیں سمجھ آتی کہ یہ اپنے آپ کو کیا سمجھ رہا تھا اور کس طرح سے سوچ رہا تھا، میرے خیال میں تو معیشت کا دشمن ہی وہی ہے، معیشت کا خانہ خراب کیا ہی پی ٹی آئی حکومت نے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم عمران خان کو نہ نکالتے تو یہ آر او الیکشن کرا جاتے، ان کے ساتھ ایک فوجی تھا جو آر او الیکشن کے موڈ میں تھا، تو یہ 2028 تک کا پروگرام ہوتا اور تب تک ہم ٹرک میں بھر کے پیسے لے کر جاتے اور آپ کو ایک سیر دودھ ملتا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان کے ساتھ فوجی کون تھا تو سابق صدر نے جواب دیا کہ آپ کیوں مجھ سے پوچھنا چاہتے ہیں، آپ کو بھی پتا ہے، مجھے بھی پتا ہے ، جب میزبان حامد میر نے پوچھا کہ کیا وہ فوجی جنرل فیض تھا تو آصف زرداری نے ان کی تائید کی۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ جنرل باجوہ، جنرل فیض کے چیف ضرور تھے لیکن اداروں میں بھی سوچ کے دھڑے ہوتے ہیں لہٰذا سوچ مختلف تھی تو سب کی یکساں سوچ نہیں تھی کہ باجوہ، عمران اور فیض کی پوزیشن پر ساتھ چلیں۔
ایک سوال پر انہوں نے ملک چھوڑنے کی پیشکش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے، مجھے یہ پیشکش بھی کی گئی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ 6 وزارتیں لے لیں لیکن میں 6 وزارتیں کیوں لیتا، میری تو اکثریت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سب پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ عمران خان کو نکالنا ہے، اگر ہم اس وقت تحریک عدم اعتماد واپس لے لیتے تو پاکستان کے حالات مزید بدتر ہوتے، نہ ہمارے پاس برآمدات تھیں، نہ زرمبادلہ کے ذخائر تھے، نہ بین الاقوامی سطح پر دوست تھے جو مدد کرسکتے تھے، ہر چیز پر وہ ڈیفالٹ کر چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ 16 مہینے کام کرنے کا تجربہ مشکل رہا کیونکہ میں نے شہباز شریف کو کافی چیزیں کہیں جو انہوں نے نہیں مانیں اور اس سے ملک کو نقصان ہوا، جیسے ہمارے پاس اس وقت دو ارب ڈالر کی چینی پڑی تھی اور چینی کی اس وقت بین الاقوامی سطح پر قیمت مختلف تھی، اگر اس وقت معاہدہ کرتے تو کافی فائدہ ہوتا لیکن وہی چینی بعد میں اسمگل ہو گئی اور افغانستان کے ذریعے باہر گئی۔
آصف زرداری نے کہا کہ پرویز الٰہی نے ہمارے ساتھ دعائے خیر کی تھی، پھول اور مٹھائی لے کر آئے تھے لیکن وہ اسی رات واپس بنی گالا چلے گئے تھے، کسی نے انہیں فون کر کے گمراہ کیا تھا لیکن مجھے معلوم نہیں ہے کہ کس نے فون کیا تھا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جماعت 172 نشستیں نہیں لے سکتی تو بہتر یہ ہے کہ ہم اس روش پر چلیں جو کل بھی چل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو ہی برتری حاصل ہو، میرا خیال ہے کہ دوسری جماعتیں اور ان کے افراد بھی ہیں، پیپلز پارٹی بھی ہے اور آپ ہمیں کیوں کمتر تصور کر رہے ہیں، پہلے ہم نے ان کو موقع دیا اور اب ہمارا چانس ہے تو ان کو چاہیے کہ ہم کو موقع دیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میری ضرورت نہیں مجبوری ہے کیونکہ بینظیر بھٹو نے شہادت قبول کی، ہمارے ہزاروں کارکنوں نے شہادت قبول کی اور ان کا قرض اتارنے کے لیے میں سیاست میں ہوں، پھر ابھی بلاول نے بھی پوری طرح سے تربیت حاصل نہیں کی، اس کی بھی تربیت کر رہے ہیں، ابھی انہیں وقت لگے گا۔
وعدے پورے نہ کرنے کے حوالے سے ایم کیو ایم کے شکوے پر سابق صدر مملکت نے کہا کہ ایم کیو ایم کو گورنرشپ دی، ان کو وزارتیں ملیں، ان کو ترقیاتی منصوبے ملے، ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وعدے پورے نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی میرا بیٹا ہے، کسی کا ایک کام نہ ہو یا دو کام نہ ہو تو وہ ایسی باتیں کرتے ہیں، نگران حکومت کا کام یہ ہے کہ کوئی زیادتی نہ ہو اور جہاں زیادتی ہوتی ہے ہم ان کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہیں اور ہمیں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں نگران حکومت مسلم لیگ(ن) کی پراکسی ہے ان کو کم پتا ہے، ندیم افضل چن کو تو کچھ بھی نہیں پتا۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ اگلے الیکشن کے بعد اگر 18ویں ترمیم کو ہدف بنایا جاتا ہے تو پیپلز پارٹی اس کا دفاع کرے گی اور میں نہیں سمجھتا کہ بلوچ اور خیبر پختونخوا بھی اس پوزیشن کو تسلیم کرے گا کہ 18ویں ترمیم ختم کر دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم صوبائی خودمختاری ہے ، اس سے پہلے آپ کو فیڈریشن سے منصوبے لینے کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑتا تھا حالانکہ ٹیکس سارا سندھ ادا کرتا ہے، 73 فیصد ٹیکس سندھ سے جمع ہوتا ہے اور ایک روڈ بھی بنوانا ہے تو آپ کو فیڈریشن کے پاس جانا پڑتا تھا، اب سندھ کے پاس اپنے پیسے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم لاپتا بلوچ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے، اب بنیے کے پاس پیسہ آ گیا ہے تو وہ ہمارے دوسرے پڑوسیوں کے ذریعے پاکستان اور بلوچستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے پیسہ لگا رہا ہے تو ہمیں اس کو روکنا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے بلاول کے حوالے سے سوال پر کہا کہ آج کی نوجوان نسل کی اپنی سوچ ہے اور سوچ کے اظہار کا ان کو حق حاصل ہے، اگر میں بلاول کو روکوں گا تو اور مسئلے ہوں گے، وہ کہے گا کہ ٹھیک ہے آپ سیاست کریں، میں نہیں کرتا، پھر کیا کروں گا۔
بلاول کی جانب سے بزرگ سیاستدانوں کو گھر بیٹھنے کے مشورے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بلاول یہ بات صرف مجھ سے نہیں بلکہ سب سے کہہ رہے ہیں، سیاست میں سیکھتے سیکھتے وقت لگتا ہے، مجھ سے اب بھی غلطیاں ہوتی ہیں، نئی پود کی سوچ یہی ہے کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے امیدواروں کو ٹکٹ میں دیتا ہوں اور بلاول کو بھی میں ہی ٹکٹ دوں گا، بے نظیر میرے پاس یہ امانت چھوڑ کر گئی ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ انتخابات میں کوئی بھی جماعت اکیلے 172 نشستیں لے سکتی ہے، نہ مسلم لیگ(ن) لے سکتی ہے، نہ مولانا صاحب لے سکتے ہیں، نہ کوئی اور جماعت لے سکتی ہے اور نہ ہم لے سکتے ہیں، یہ ایک اتحادی حکومت بنے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی مرتبہ الیکشن میں بھی فنکشنل لیگ نے ہمارے خلاف اتحاد بنا کر الیکشن لڑا تھا، ایم کیو ایم پچھلی دفعہ بھی ہمارے ساتھ نہیں تھی اور اس دفعہ بھی نہیں ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی ان الیکشنز میں آپ کو اچھا خاصا سرپرائز دے گی۔
آصف زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن ابھی ہم نے ان کے جانشین کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کا بورڈ کرے گا، عمر کا ایسا حصہ آتا ہے کہ بہت سے مسائل آ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے استعفیٰ دیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مذمت کرتے رہیں گے، اگر کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو فلسطین بھی ہماری شہ رگ ہے، فلسطین کے بغیر مسلم دنیا مکمل نہیں ہے، یہ جنگیں چلتی رہیں گی، نہ فلسطینی مانیں گے نہ دنیا مانے گی اور معاشی ترقی کے لیے اسرائیلیوں کو جو استحکام چاہیے وہ وہاں کبھی نہیں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے توشہ خانہ سے بم پروف گاڑی لی تھی جو مجھے بطور صدر متحدہ عرب امارات نے دی تھی اور لیبیا کے کرنل قذافی نے بھی دی تھی، میں نے اس وقت ان گاڑیوں کے ڈھائی، ڈھائی کروڑ روپے دے کر انہیں توشہ خانہ سے خریدا تھا۔
سابق صدر مملکت نے کہا کہ مجھ پر جو پر جو 14 سے 15 سال پرانے کیسز تھے وہ تو ختم ہو گئے ہیں لیکن نئے کیسز ختم نہیں ہوئے، مجھ پر یہ نئے کیسز نواز شریف نے نہیں بلکہ عمران خان نے بنائے تھے۔
مشہور شاعر فیض احمد فیض کو گوادر کے راستے بیرون ملک بھیجنے کا قصہ بیان کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ فیض اور میرے والد کی دوستی تھی، وہ تھوڑی تکلیف میں آ گئے تھے تو ہم نے ان کو اپنے قبیلے کے پاس رکھا تھا، وہ زرداری قبیلے کے مہمان تھے، وہ وہاں سے گوادر گئے اور ہم نے گوادر سے انہیں لانچ کے ذریعے عمان پہنچایا تھا۔