• KHI: Fajr 5:27am Sunrise 6:45am
  • LHR: Fajr 5:03am Sunrise 6:26am
  • ISB: Fajr 5:10am Sunrise 6:35am
  • KHI: Fajr 5:27am Sunrise 6:45am
  • LHR: Fajr 5:03am Sunrise 6:26am
  • ISB: Fajr 5:10am Sunrise 6:35am

آصف زرداری نے ’الیکٹیبلز‘ کو راغب کرنے کیلئے ٹیمیں تشکیل دے دیں

شائع November 26, 2023
آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹiرینز (پی پی پی پی) کے صدر ہیں —فوٹو: ایکس/بختاور بھٹو
آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹiرینز (پی پی پی پی) کے صدر ہیں —فوٹو: ایکس/بختاور بھٹو

سابق صدر مملکت و رہنما پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے 2024 کے عام انتخابات کے پیش نظر پارٹی کی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے ’الیکٹیبلز‘ سمیت سمیت سیاست کے دیگر بڑے کھلاڑیوں کو راغب کرنے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے انفارمیشن سیکریٹری فیصل کریم کنڈی نے گزشتہ روز ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ سربراہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) آصف علی زرداری نے دیگر سیاسی شخصیات کے ساتھ مکالمے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

نیئر حسین بخاری، قمر زمان کائرہ، فیصل کریم کنڈی، محمد علی شاہ باچا اور ساجد طوری پنجاب اور خیبرپختونخوا کی کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

سندھ کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹیوں میں سعید غنی اور ناصر حسین شاہ جبکہ بلوچستان میں چنگیز خان جمالی، روزی خان کاکڑ اور صابر علی بلوچ شامل ہیں۔

آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) کے صدر ہیں جبکہ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین ہیں، پارلیمانی انتخابات کے لیے آصف علی زرداری پی پی پی پی کے پلیٹ فارم سے ٹکٹ دینے کے مجاز ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان اختلاف واضح ہونے سے قبل پی پی پی پی کی جانب سے شاید ہی کبھی کوئی پارٹی نوٹی فکیشن جاری کیا گیا ہو۔

ایک سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ جب عام انتخابات اور امیدواروں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ ہوتا ہے تو حتمی فیصلہ آصف زرداری کا ہی ہوتا ہے، آصف زرداری کی جانب سے سیاسی مذاکرات کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل کا یہ نوٹی فکیشن ظاہر کرتا ہے کہ شاید انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ پارٹی کے مرکزی سربراہ وہ ہی ہیں۔

پارٹی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ آصف زرداری دبئی سے واپسی پر ان کمیٹیوں کے ارکان کے ساتھ ایک اجلاس کریں گے تاکہ انہیں اس سلسلے میں ذمہ داریاں سونپ سکیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کمیٹیاں بنیادی طور پر آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی کی تیاریوں کا حصہ ہیں جو کہ الیکٹیبلز کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں سے روابط کے لیے بنائی گئی ہیں۔

ان سے استفسار کیا گیا کہ کیا مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بہت سے الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے (خاص طور پر بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں) کی کوششوں پر پیپلزپارٹی پریشان ہے؟ جواب میں قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ہم اس ماہ کے آخر میں بلوچستان میں اپنی انتخابی مہم شروع کرنے جا رہے ہیں اور کئی معروف شخصیات ہمارے ساتھ شامل ہوں گی، اسی طرح پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں پہلے ہی مضبوط ہے۔

گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کے لیے بلاول بھٹو کے بارے میں آصف زرداری کے تبصروں کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا، یاد رہے کہ چند روز قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں آصف زرداری نے اپنے بیٹے کی سیاسی پختگی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں ’جذباتی اور ناتجربہ کار‘ قرار دیا تھا۔

’شہ سرخیوں پر یقین نہ کریں‘

بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد کے درمیان اختلاف رائے کی افواہوں کے پیش نظر بختاور بھٹو زرداری نے گزشتہ روز اپنے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر ایک فیملی فوٹو شیئر کی۔

تصویر کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ شہ سرخیوں پر یقین نہ کریں، ہمارے لیے صرف اور ہمیشہ فیملی مقدم ہے۔

باپ بیٹے کے درمیان یہ تازہ اختلاف ان لوگوں کے لیے بالکل نیا نہیں ہے جو بلاول بھٹو زرداری کی سیاست سے باخبر ہیں۔

انہوں نے سیاست کے پرانے اصولوں اور قانون سازی کے معاملات پر سمجھوتوں کو کھل کر چیلنج کیا ہے۔

سیاسی پنڈت اس لڑائی کو مسلم لیگ (ن) کا ’اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا‘ بننے اور اقتدار میں آنے کے لیے بظاہر ایک ڈیل طے ہونے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی اپنے گڑھ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بنائے گئے گرینڈ الائنس پر بھی غصہ ہے اور بلاول بھٹو زرداری کو اس منصوبے کے پیچھے بااختیار حلقوں کا ہاتھ نظر آرہا ہے۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ سے پوچھا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار کیسے بن سکتے ہیں اگر ان کے والد انہیں ’ناپختہ‘ سمجھتے ہیں؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ انسان گود سے قبر تک سیکھتا رہتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ بلاول بھٹو نے لاہور میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس میں اپنے والد سے کہا تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز سے بات کر کے لیول پلیئنگ فیلڈ یقینی بنائیں یا انہیں ان قوتوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دیں جو الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن چاہتی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 نومبر 2024
کارٹون : 7 نومبر 2024