تربت میں ’ہلاکتوں‘ کے خلاف دھرنا چھٹے روز بھی جاری

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2023
ہڑتال کے باعث مکران ڈویژن کا کراچی، کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے مکمل رابطہ منقطع رہا— فائل فوٹو: اے ایف پی
ہڑتال کے باعث مکران ڈویژن کا کراچی، کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے مکمل رابطہ منقطع رہا— فائل فوٹو: اے ایف پی

بلوچستان کے شہر تربت میں بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف مظاہرین کا دھرنا چھٹے روز میں داخل ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال بلوچ یکجہتی کونسل (بی وائی سی) کی جانب سے واقعے کے ردعمل میں دی گئی، بالاچ مولا بخش کے اہل خانہ ان کی لاش کے ساتھ گزشتہ 6 دنوں سے تربت میں احتجاجی دھرنا دے رہے ہیں۔

احتجاج کو سیکڑوں سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنان کی حمایت بھی حاصل ہے، تاجروں اور کاروباری برادری نے بھی اپنے کاروباربند رکھ کر اظہار یکجہتی کیا۔

گوادر، تربت، پنجگور، پسنی، اورماڑہ اور دیگر علاقوں میں تمام بازار، دکانیں، مارکیٹیں، شاپنگ سینٹرز، حتیٰ کہ پرائیویٹ بینک اور دیگر ادارے بھی ہڑتال کے اثرات وسیع پیمانے پر بند رہے۔

ہڑتال کے باعث مکران ڈویژن کا کراچی، کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے مکمل رابطہ منقطع رہا۔

لواحقین اور دیگر افراد نے ڈی بلوچ سی پیک ہائی وے پر مسلسل چھٹے روز بھی دھرنا جاری رکھا۔

دریں اثنا متوفی کے اہل خانہ اور بلوچ یکجہتی کونسل نے بالاچ مولا بخش کی تدفین بدھ کو تربت کے کوہ مراد قبرستان میں کرنے کا اعلان کیا۔

بلوچ یکہجتی کونسل کے رہنماؤں نے شام میں احتجاجی کمیپ میں تدفین کے بعد بھی اُس وقت تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا جب تک آپریشن میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔

تربت میں سیشن کورٹ کے احکامات کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرنے پر بلوچ یکہجتی کونسل کے رہنماؤں نے پولیس اہلکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دھرنا ایک تحریک بن چکا ہے اور اسے بلوچستان کے دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے گا۔

24 نومبر کو محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے مبینہ مقابلے میں کل چار افراد مارے گئے تھے، ان میں سے بالاچ مولا بخش، شکور بلوچ، سیف بلوچ کی شناخت ہوگئی، جب کہ ایک شخص کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی۔

تبصرے (0) بند ہیں