سپریم کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری دوسرے شوکاز نوٹس میں لگائے گئے الزامات کو ’جھوٹا‘ اور ’بنا شواہد‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے نوٹس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرنے کے علاوہ کیسز کی سماعت کے لیے بینچ مقرر کرنے والی کمیٹی کے اراکین کو ایک خط بھی ارسال کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ کی متعدد شکایات دائر کی گئیں جس پر انہیں 22 نومبر کو نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اور پندرہ دن کے اندر اپنے دفاع کی ہدایت کی گئی۔

اس شو کاز نوٹس کے جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے نہ صرف سپریم کورٹ کے سامنے نئی درخواست دائر کی بلکہ مقدمات کی سماعت کے لیے بینچوں کی تشکیل کرنے والی ججوں کی کمیٹی کے تمام ممبران کو ایک صفحے پر مشتمل ایک خط بھی لکھا ہے۔

سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت کے لیے بینچوں کی تشکیل کرنے والی ججوں کی کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل ہے۔

خط میں اپنی درخواست کو فوری طور پر عدالت عظمیٰ کے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خط میں اس بات پر روشنی ڈالی سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے سیکشن 3 اور 7 کے تحت یہ سینئر ججوں کی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام درخواستوں کو جو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہیں یا عبوری ریلیف کے لیے داخل کی گئی ہیں، انہیں 14 دن کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ مدعا علیہ جج نے بالترتیب 20 نومبر اور 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے اپنے خلاف کارروائی کو چیلنج کرنے والی دو درخواستیں دائر کیں، اس کے علاوہ عبوری ریلیف دینے کی درخواست بھی کی لیکن پھر بھی سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور ’فضول الزامات‘ کی بنیاد پر ان کے بنیادی حقوق میں مداخلت کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے اپنے وکلا کے توسط سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور سپریم جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کونسل کے پاس متعلقہ معاملے کی سماعت کا اختیار ہی نہیں ہے، کونسل کی کارروائی درخواست گزار کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

اس میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا 24 نومبر کا نوٹس کالعدم قرار دیا جائے، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے ختم کی جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو ایک بار پھر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات میں لگائے گئے الزامات اور شواہد کا مکمل ریکارڈ بھی منسلک کیا تھا تاکہ وہ پندرہ دن میں اپنا جواب جمع کرا دیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف بدانتظامی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والا آئینی فورم ہے۔

شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس سردار طارق مسعود، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان نے کیا، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے اختلاف کیا تھا۔

اس سے قبل 27 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل نے تین، دو کی اکثریت سے ایک شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس کا بھی جواب دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے پہلے شوکاز نوٹس پر اپنے اعتراضات میں کہا تھا کہ نوٹس ان پر لگائے اصل الزامات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا کہ وہ کیسے بدانتظامی کے زمرے میں آتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ایڈووکیٹ میاں داؤد، مسلم لیگ (ن) لائرز فورم، پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سندھ بار کونسل اور شہری ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔

اس سے قبل اپنے اعتراضات میں جسٹس مظاہر نقوی نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ جس طرح سے شوکاز جاری کرکے ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی ہے وہ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کے منافی اور متصادم ہے۔

مزید یہ کہ 27 اکتوبر 2023 کو ان کی پیشگی رضامندی کے بغیر پریس ریلیز جاری کرنا نہ صرف ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انہیں میڈیا ٹرائل کا نشانہ بھی بنایا گیا، عوام کی نظروں میں ان کی تضحیک کی گئی اور ملامت کا نشانہ بنایا گیا۔

اعتراض میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ شوکاز نوٹس میں اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی کہ ان سے عمومی الزامات کا جواب دینے کا کہا گیا ہے، یا انہیں ان الزامات کا مشترکہ جواب دینا ہے یا ہر شکایت کے ہر ایک الزام کا جواب دینا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا تھا کہ انہیں دستاویزات فراہم نہ کر کے نہ صرف منصفانہ ٹرائل، قانون کے مساوی تحفظ سے محروم کیا گیا ہے بلکہ اس طرح کے طرز عمل کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے رائج، روایتی طریقہ کار اور شفافیت پر سنگین سوال اٹھ گیا ہے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ جج کے خلاف کارروائی اس انداز میں کی گئی ہے جو ظاہری طور پر امتیازی ہے، اس لیے یہ آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔

اعتراض میں شکایات کو غیر سنجیدہ اور سیاسی طور پر داخل کردہ قرار دیتے ہوئے انہیں خارج کرنے کی درخواست کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں