امریکی ماہرین نے طویل تحقیق اور محنت کے بعد انسان کی سانس کی نالیوں سے حاصل کیے گئے خلیوں سے انتہائی چھوٹے زندہ روبوٹ تیار کرلیے جو دو ماہ تک بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق امریکی ماہرین کی ٹیم نے انسان کی سانس کی نالی سے ’اسٹیم سیلز‘ یعنی خلیے حاصل کیے، جنہیں لیبارٹری میں ایک اور طرح کے خلیوں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ماہرین نے خلیات کو لیبارٹری میں ملانے کے بعد ان کی مانیٹرنگ کی اور سات دن سے پہلے پہلے اسٹیم سیلز سے ازخود چھوٹے زندہ روبوٹ تیار ہوگئے۔

ماہرین نے ننھے روبوٹوں کو ’اینتھروبوٹ‘ کا نام دیا ہے جو انتہائی چھوٹے کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آتے ہیں۔

ماہرین نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ تیار کیے گئے اینتھروبوٹس لیبارٹریز، کھانوں سمیت دیگر مقامات پر 60 دن تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ماہرین نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں تیار کیے گئے مذکورہ روبوٹوس کو طبی تحقیق اور علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم فوری طور پر یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ انہیں کیسے طبی کاموں میں استعمال کیا جائے گا؟

ممکنہ طور پر مستقبل میں ایسے ننھے روبوٹوس کو انسانی جسم کے اندر ہونے والے زخموں، بیماریوں اور مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور انہیں جسم میں داخل کرکے انہیں ایسی ہدایات دی جا سکتی ہیں کہ وہ اندر جاکر ڈاکٹر کا کام سر انجام دیں۔

اسٹیم سیلز جنہیں عام زبان میں خلیے کہا جاتا ہے، انسانی جسم کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں، یہ انتہائی پیچیدہ طریقے سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

اسٹیم سیلز سانس کی نالی، ایمبریوز اور رحم مادر سمیت دیگر انسانی اعضا میں پائے جاتے ہیں، یہ خون، جلد اور ہڈیوں کے درمیان ایک ایسے مادہ ہوتا ہے جو انتہائی کچا ہوتا ہے اور وہ کسی بھی چیز میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ کہ اس کی کئی کاپیاں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔

ماضی میں بھی ماہرین انسانی اسٹیم سیلز سے متعدد خلیات اور ادویات تیار کر چکے ہیں جب کہ جانداروں کے اسٹیم سیلز سے بھی انتہائی چھوٹے کیڑے مکوڑوں جیسے روبوٹ بنائے جا چکے ہیں۔

تاہم اب تک ایسے روبوٹوس کو بڑے پیمانے پر صحت کے شعبے میں استعمال نہیں کیا جا رہا، تاہم سائنس دان ان پر تحقیقات کرنے میں مصروف ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں