چلاس میں بس پر فائرنگ کا مقدمہ درج، 6 افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2023
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ریسکیو 1122 کے ذریعے میتوں کو آبائی علاقوں کو روانہ کر دیا گیا — فوٹو: عمر باچا
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ریسکیو 1122 کے ذریعے میتوں کو آبائی علاقوں کو روانہ کر دیا گیا — فوٹو: عمر باچا

دیامر پولیس نے گزشتہ روز گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں اسلام آباد جانے والی بس پر حملے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کے علاوہ 6 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔

ہفتے کی شام نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے پہاڑں سے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 2 فوجیوں سمیت کم از کم 9 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جب کہ واقعے میں 21 دیگر مسافر زخمی بھی ہوئے تھے۔

گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ فائرنگ کی وجہ سے بس ڈرائیور نے ایکسلریٹر پر قدم رکھا جس کی وجہ سے بس مال بردار ٹرک سے جاٹکرائی، انہوں نے فائرنگ حملے کو دہشت گردی قرار دیا۔

ابھی تک کسی تنظیم نے فائرنگ واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

آج ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کمشنر دیامر کے تعلقات عامہ کے افسر (پی آر او) نے کہا کہ ایس ایچ او دیامر عظمت شاہ کی جانب سے نامعلوم شرپسندوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پی آر او راجا اشفاق طاہر نے کہا کہ اب تک چھ مشتبہ افراد کو دو تھانوں میں حراست میں لیا گیا ہے۔

سرکاری عہدیدار نے کہا کہ گلگت بلتستان کے تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے گئے ہیں اور خطے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔

راجا اشفاق طاہر نے مزید کہا کہ پولیس نے دیامر بھر میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، شاہراہ قراقرم پر ٹریفک آج معطل رہے گی۔

ڈپٹی کمشنر دیامر ریٹائرڈ کیپٹن عارف احمد نے بھی ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو اس پیش رفت کی تصدیق کی۔

اس کے علاوہ چلاس کے اسسٹنٹ کمشنر صداقت علی نے بتایا کہ مرحومین کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جس میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان اور اعلیٰ فوجی حکام نے شرکت کی، بعد ازاں ریسکیو 1122 کے ذریعے میتوں کو آبائی علاقوں کو روانہ کر دیا گیا۔

قبل ازیں گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس لون نے چلاس ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اور طبی عملے کو بہترین طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب شاہراہ قراقرم کی بندش کے باعث گلگت بلتستان جانے والے سیکڑوں مسافر بشام، کوہستان اور دیگر علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

بشام میں ایک ہوٹل کے مالک محمد دیدار نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ خواتین اور بچوں سمیت پھنسے ہوئے مسافروں کو مفت رہائش فراہم کردی گئی ہے۔

ادھر اس واقعے کے خلاف چلاس اور ہنزہ میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے، مظاہرین نے فوری کارروائی اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان سمیت پاکستان بھر میں اس سے قبل بھی مسافر بس پر نامعلوم افراد اور دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

مارچ 2021 میں گلگت بلتستان کی وادی نلتر میں نامعلوم مسلح افراد کی ایک مسافر وین پر فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق اور 7 زخمی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل 28 ستمبر 2019 میں خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں نامعلوم افراد کی مسافر بس پر اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 6 افراد جاں بحق اور چھ زخمی ہو گئے تھے۔

اس سلسلے میں سب سے ہولناک واقعہ اپریل 2019 میں پیش آیا تھا جب صوبہ بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے کے قریب مسلح افراد نے 14 مسافروں کو بسوں سے اتار کر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

اس سے قبل نومبر 2012 میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں مسافر وین پر نامعلوم مسلح دہشت گردوں کی فائرنگ کے بعد وین میں آگ بھڑک اُٹھی تھی جس میں 18افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

کوہستان جیسا ہی ہولناک واقعہ 2012 میں بھی پیش آیا تھا جب خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں مسلح افراد نے راولپنڈی سے گلگت جانے والی ویگن پر فائرنگ کر کے اٹھارہ افراد کو قتل کردیا تھا۔

ویگن کو روک کر اس میں سوار مسافروں کو باہر نکال کر گولیاں ماری گئی تھیں اور فائرنگ سے قبل حملہ آوروں نے مسافروں کے شناختی کارڈ بھی چیک کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں