• KHI: Fajr 4:33am Sunrise 5:58am
  • LHR: Fajr 3:43am Sunrise 5:16am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:17am
  • KHI: Fajr 4:33am Sunrise 5:58am
  • LHR: Fajr 3:43am Sunrise 5:16am
  • ISB: Fajr 3:40am Sunrise 5:17am

ڈسکوز کی زائد بلنگ مجرمانہ سرگرمی کے مترادف ہے، کارروائی کی جائے، رضا ربانی

شائع December 5, 2023
رہنما پیپلز پارٹی رضا ربانی نے بجلی کی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
رہنما پیپلز پارٹی رضا ربانی نے بجلی کی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے ملک کی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی جانب سے بدعنوانی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مجرمانہ سرگرمی کے مترادف ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بجلی کی فراہمی میں اوور بلنگ کے انکشافات میں پاکستان بھر میں ڈسکوز پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ صارفین کو لوٹ رہے ہیں اور ان سے 100 فیصد سے زیادہ رقم وصول کرتے ہیں۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ایک جامع انکوائری میں انکشاف کیا کہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں کسی استثنیٰ کے بغیر اپنے صارفین سے اوور چارجنگ اور اوور بلنگ کر رہی ہیں۔

پاور سیکٹر ریگولیٹر نے اپنی 14 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک میں ایک بھی ڈسکو ایسا نہیں ہے جو 100 فیصد درست طریقے سے بل وصول کر رہا ہو۔

یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ڈسکوز بجلی چوری کے خلاف ملک گیر مہم چلا رہے ہیں۔

آج جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں رضا ربانی نے نیپرا کی انکوائری کو ’تمام گھپلوں کی ماں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجلی کی کمپنیاں مہنگے بلوں کے ذریعے صارفین کی کھال اتار رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بجلی کی فراہمی کے حوالے سے اوور بلنگ کی سب سے بڑی بددیانتی ہے، نیپرا کی رپورٹ نے ڈسکوز کے پورے ریونیو اسٹریم کی سالمیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ صارفین سے وصول کی جانے والی اصل رقم بلوں پر دستیاب میٹر ریڈنگ کے اسنیپ شاٹ سے مختلف ہے، کچھ معاملات میں اسنیپ شاٹس غیر واضح اور مبہم تھے جبکہ کچھ جگہوں پر انہیں جان بوجھ کر نہیں لیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج مجرمانہ سرگرمیوں کے مترادف ہیں اور ڈسکوز کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ زائد وصول کی گئی رقم کو صارفین کے بلوں میں ایڈجسٹ کیا جائے اور ڈسکوز کے چیف ایگزیکٹو افسران کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں اور نیپرا کی رپورٹ کو سینیٹ کے سامنے رکھ کر ان سے تجویز طلب کی جائے کہ ان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔

نیپرا کے ساتھ بات چیت جاری ہے، کے الیکٹرک

دریں اثنا کے الیکٹرک نے کہا کہ ہم پاور ریگولیٹر کے ساتھ معلومات کے تبادلے اور اتھارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے دیگر نکات پر بات چیت میں مصروف ہیں۔

کے الیکٹرک کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ڈسکوز میں بلنگ کے طریقوں پر نیپرا کی حال ہی میں جاری کردہ انکوائری رپورٹ کے مطابق کے الیکٹرک واحد کمپنی ہے جو میٹر ریڈنگ کے لیے ہینڈ ہیلڈ ڈیوائسز استعمال کرتی ہے، جو میٹر ریڈنگ اور بلنگ کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک موثر حل ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ رپورٹ میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ کے الیکٹرک کے ماہانہ بلنگ سائیکل ریگولیٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کمپنی کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں دیکھی گئی۔

کے الیکٹرک نے مزید کہا کہ نیپرا کی انکوائری رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی صارف سلیب تبدیل کر کے کسی صارف کو دھوکا نہیں دیا گیا اور نہ ہی میٹر ریڈنگ میں کے الیکٹرک کی غلطی کی کوئی صارف اپنے محفوظ یا لائف لائن اسٹیٹس سے محروم ہوا۔

چونکا دینے والے انکشافات

نیپرا کی انکوائری میں معلوم ہوا کہ صارفین سے وصول کی جانے والی اصل رقم ان کے بلوں پر دستیاب میٹر ریڈنگ کے اسنیپ شاٹ سے مختلف ہے، کچھ مواقع پر سنیپ شاٹس یا تو غیرواضح تھے یا جان بوجھ کر نہیں لیے گئے۔

ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو)، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) نے غلط تصویروں کے ساتھ سب سے زیادہ بل بھیجے۔

صارفین کو لازمی 30 دن کی بلنگ کی مدت سے زائد کا بل بھیجا گیا، جس کے نتیجے میں ’پروٹیکٹڈ‘ صارفین کو اوپر والے سلیب کی شرح سے بل بھیجے گئے، جو صارفین 200 واٹ سے کم ماہانہ کم از کم 6 ماہ تک مسلسل استعمال کرتے ہیں۔

قانون کے تحت میٹر ریڈنگ لازمی طور پر 30 دن سے کم یا زیادہ سے زیادہ 30 دن تک کی جانی چاہیے، تاہم نیپرا کو پتا چلا کہ ایک کروڑ 37 لاکھ سے زائد گھریلو صارفین کو ان دو مہینوں کے بل 30 دن سے زائد مدت کے بھیجے گئے، جبکہ 32 لاکھ صارفین سے بل کا زائد دورانیہ ہونے کے نتیجے میں بُلند سلیب کے مطابق چارجز بھیجے گئے۔

اور اس اقدام کے نتیجے میں 8 لاکھ 40 ہزار صارفین پروٹیکٹڈ کیٹگری سے نکل گئے، جبکہ 52 ہزار 800 صارفین نان لائف لائن کیٹگری میں منتقل ہو گئے، ایسے صارفین جو 100 کلو واٹ فی ماہ تک استعمال کرتے ہیں، انہیں ’لائف لائن‘ قرار دیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صرف میپکو نے 79 لاکھ 90 ہزار صارفین کو جولائی اور اگست میں زائد بل بھیجے۔

گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) نے 16 لاکھ 50 ہزار صارفین، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) نے 11 لاکھ 90 ہزار صارفین، لیسکو نے 11 لاکھ 70 ہزار، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) نے 7 لاکھ 30 ہزار 105، سیپکو نے 3 لاکھ 26 ہزار 249، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے 3 لاکھ 13 ہزار 596، کیسکو نے ایک لاکھ 64 ہزار 987 اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) نے 45 ہزار 850 صارفین کو زائد بل بھیجے، یہ اعداد و شمار 11 میں سے 9 ڈسکوز کے ہیں، کے الیکٹرک اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی نے مکمل ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔

تاہم رپورٹ میں بتایا گیا کہ کے الیکٹرک نے 78 ہزار صارفین کو جولائی اور 66 ہزار کو اگست میں غلط تصاویر کی بنیاد پر بل جاری کیے۔

اسی طرح مجموعی طور پر ایک کروڑ 6 لاکھ 80 ہزار صارفین کو 30 دن سے زائد دورانیے کے بل بھیجے گئے، کچھ کیسز میں 40 دن سے زائد تک کی بلنگ کی گئی، 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد صارفین کو 40 دن سے زائد دورانیے کے بل بھیجے گئے۔

رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے ان دو ماہ میں 4 لاکھ صارفین کو خراب میٹر کے بہانے ’اوسط‘ بل بھیجے۔

اگست 2023 تک 4 لاکھ 92 ہزار 478 خراب میٹرز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی، یہ میٹرز 2 ماہ سے تین سال سے زائد تک خراب رہے۔

قانون کے تحت ایسے میٹرز کو 2 بلنگ کے اندر لازمی تبدیل کرنا ہوتا ہے، متعلقہ تقسیم کار کمپنیوں نے میٹرز تبدیل کرنے کے بجائے خراب قرار دیے جانے کی مدت سے اوسط بنیادوں پر بلنگ کی گئی۔

تمام تقسیم کار کمپنیوں بشمول کے الیکٹرک کے بلوں میں تقریباً 100 فیصد تضادات سامنے آئے۔

رپورٹ کے مطابق ڈسکوز نے ’غلط اور فضول‘ بنیادوں پر ڈیٹکشن بل صارفین کو بھیجے جس کے سبب وصولیاں کم ہوئیں، یہ بل عام استعمال کے علاوہ اُس وقت اضافی بھیجے جاتے ہیں جب میٹر میں چھیڑ چھاڑ، چوری یا پھر بجلی کا غلط استعمال کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 26 جولائی 2024
کارٹون : 25 جولائی 2024