پاکستان کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے میں عملے کی سطح پر معاہدے کی منظوری کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 11 جنوری کو ہوگا۔

جون میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے انتہائی اہم 9 ماہ کے معاہدے کی منظوری دی تھی تاکہ پاکستان کے معاشی استحکام کے پروگرام کو مدد فراہم کی جاسکے، اس منظوری نے فوری طور پر 1.2 ارب ڈالر جاری کرنے کی اجازت دی تھی، بتایا گیا تھا کہ بقایا رقم کو پروگرام کی مدت میں مرحلہ وار دو سہ ماہی جائزوں کے بعد جاری کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف عملے اور پاکستانی وفد کے درمیان 15 نومبر کو اسلام آباد میں اسٹاف لیول معاہدہ ہوا تھا، اس پیش رفت سے پاکستان کو اسپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آر) کے تحت تقریباً 70 کروڑ ڈالر تک کی رسائی حاصل ہوجائے گی، اس سے 9 ماہ کے 3 ارب ڈالر اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت مجموعی طور پر تقریباً 1.9 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔

ابتدائی طور پر آئی ایم ایف بورڈ کو پہلے قسط کی منظوری کے لیے 7 دسمبر کو ملاقات کرنا تھی۔

اس ہفتے کی شروعات میں ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزارت خزانہ عملے کی سطح کے معاہدے کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے دسمبر کے پہلے ہفتے میں اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے پوری کوشش کر رہا ہے۔

تاہم کرسمس اور نئے سال کی تعطیلات کی وجہ سے ایگزیکٹو بورڈ کے اراکین دسمبر کے آخری ہفتے اور جنوری کے پہلے ہفتے میں دستیاب نہیں ہوں گے۔

پیر کو اپڈیٹ ہونے والے آئی ایم ایف شیڈول کے مطابق 12 ممالک ایسے ہیں جن کے کیسز (آرٹیکل-4 مشاورت اور پروگرام کے جائزے) 14 دسمبر تک ایگزیکٹو بورڈ کے ایجنڈے پر ہیں، یہ ممالک آرمینیا، بنگلہ دیش، بیلجیئم، بینن، کابو وردے، کانگو، کوٹ ڈی آئیوری، مالڈووا، روانڈا، سینیگال، صومالیہ اور سری لنکا ہیں۔

ان اجلاسوں میں مختلف پہلو زیرِغور ہوں گے، جن میں اقتصادی پیش رفت اور رکن ممالک کی پالیسیوں پر آرٹیکل 4 مشاورت شامل ہے، آئی ایم ایف کے امدادی پیکجز کا بھی ایگزیکٹو بورڈ جائزہ لے گا، مثلاً توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) جس پر اس نے پاکستان کے ساتھ بھی دستخط کیے ہیں۔

بقایا پیشگی اقدامات نہ ہونے کی صورت میں عام طور پر آئی ایم ایف کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو عملے کی سطح کے معاہدے کے بعد منظوری کے لیے تقریباً 15 روز کا وقت لگتا ہے، مگر پاکستان کے کیس میں پہلی سہ ماہی کے جائزے کے لیے کوئی پیشگی کارروائی باقی نہیں ہے۔

آئی ایم ایف مشن نے حکام سے مارکیٹ کے مطابق شرح تبادلہ پر واپس آنے کا مطالبہ کیا تھا اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی، اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور مشکل عالمی مالیاتی حالات کے سبب پیدا ہونے والے خطرات پر روشنی ڈالی تھی اور حکام کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکام کی پالیسی اور اصلاحات کی کوششوں کی معاونت کے لیے طے شدہ بیرونی امداد کا بروقت اجرا ضروری ہے کیونکہ حکومت کثیرالجہتی اور سرکاری دو طرفہ شراکت داروں کے ساتھ مصروفیت کو بڑھا رہی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب نے پاکستان کے قومی خزانے میں ڈپازٹ کیے گئے 3 ارب ڈالر کی مدت میں توسیع کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں