نگران وزیر خزانہ نے اسٹیٹ لائف انشورنش کی نجکاری کا مطالبہ کردیا

14 دسمبر 2023
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ پاکستان جیسے آفات کے خطرے سے دوچار ملک میں بیمہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا — تصویر: طاہر شیرانی
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ پاکستان جیسے آفات کے خطرے سے دوچار ملک میں بیمہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا — تصویر: طاہر شیرانی

نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کی نجکاری کے ذریعے بیمہ کے شعبے میں پبلک سیکٹر کے غلبے کو کم کرنا چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کی جانب سے منعقد کردہ انٹرنیشنل اینشور امپیکٹ کانفرنس 2023 سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نجی سیکٹر کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کر کے انشورنس کے شعبے میں مقابلے کو بڑھانا چاہیے۔

سرکاری ملکیتی لائف انشورنس کے پاس اس وقت 53 فیصد مارکیٹ شیئرز ہیں۔

نگران وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے، ہمیں نجکاری کے ساتھ انشورنس کے شعبے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی طرف جانا چاہیے۔

پاکستان میں بیمہ تک رسائی محض 0.87 فیصد ہے، جو پریمیمز کو جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر ظاہر کرتی ہے، اس کے برعکس بھارت اور سری لنکا میں رسائی کا تناسب بالترتیب 3.7 اور 1.2 فیصد ہے، 2022 میں 42 انشورنس کمپنیوں نے ایک کروڑ فعال پالیسیوں پر کل 553 ارب روپے پریمیم حاصل کیا، جس کے نتیجے میں 2 ہزار 776 روپے فی شخص معمولی پریمیم حاصل ہوا۔

ان کا کہنا تھا آگاہی کی کمی، معمولی بچت کی شرح اور رسک منیجمنٹ کے فوائد کو سمجھنے میں کمی کی وجہ سے انشورنس کا کم استعمال ہوتا ہے۔

شمشاد اختر نے کہا کہ کم رسائی اور آگاہی نہ ہونا بیمہ سیکٹر میں اسٹرکچرل سختیوں کا اظہار کرتا ہے اور یہی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے اب تک بیمہ کے شعبے کوبراہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری موصول نہیں ہوئی۔

نگران وزیر خزانہ نے انشورنس کمپنیوں سے موسمیاتی تبدیلی، سائبر کے خطرات، نان ریٹائرڈ کم آمدن والے افراد کے لیے نئے حل پیش کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ پبلک پینشن کے نظام سے دباؤ کم کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے آفات کے خطرے سے دوچار ملک میں بیمہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ کاروباری حضرات، افراد اور برادریوں کو بحران کے وقت میں انتہائی ضروری مالیاتی کشن فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسم سے متعلق خطرات جیسے سیلاب، قحط، بارش اور جنگلات کی آگ وغیرہ میں انشورنس فراہم کر کے بیمہ کنندگان افراد اور کاروبار کو آفات سے بحالی اور ان کی زندگی کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

انہوں نے انشورنس کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ وہ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر کے خطرات کو کم کرنے کی حکمت عملی تیار کریں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو برداشت کرنے کے قابل ہو۔

انہوں نے انشورنس کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ خطرے پر مبنی قیمتوں کے ماڈلز اور جدید انشورنس مصنوعات کے ذریعے پائیدار طرز عمل کی ترغیب دیں، مثال کے طور پر، گھر کے مالکان کو کم پریمیم کی پیشکش کرنا جو توانائی کے مؤثر اقدامات پر عمل درآمد کرتے ہیں یا پائیدار طریقوں کو اپنانے والے کاروباروں کے لیے رعایتیں، ماحول کے حوالے سے زیادہ شعوری رویے کی طرف تبدیلی کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید نے کہا کہ ریگولیٹر کے انشورنس ڈویژن کی طرف سے شروع کیے گئے پانچ سالہ منصوبے کا مقصد ڈیجیٹل ایکو سسٹم سے فائدہ اٹھانا، انشورنس کی رسائی کو بڑھانا، تکافل کی ترقی اور سیکٹر کی دوبارہ انشورنس کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں