رہنما مسلم لیگ (ن) ملک احمد خان نے کہا ہے کہ الیکشن کے قوانین کے سیکشن 51 میں یہ تفصیل درج ہے کہ الیکشن کمیشن کن کو ریٹرننگ افسران ( آر اوز ) تعینات کرسکتا ہے، ای سی پی عدلیہ، ایگزیکٹو سے لیے افسران کو بھی تعینات کرسکتا ہے۔

لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج یہ سوال اٹھایا گیا کہ الیکشن کمیشن ایگزیکٹو میں سے آر اوز تعینات نہیں کرسکتا تو میں آپ کی توجہ چند باتوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کے قوانین کے سیکشن 51 میں یہ تفصیل درج ہے کہ الیکشن کمیشن آر اوز کن کو تعینات کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن اپنے عملے کو آر او بنا سکتا ہے، وہ عدلیہ سے افسران کو تعینات کرسکتا ہے اور وہ ایگزیکٹو سے لیے افسران کو بھی تعینات کرسکتا ہے، یہ قانون میں موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے یہ فریضہ سونپنے کے لیے پہلے عدلیہ سے رجوع کیا تو اس وقت جوڈیشل پالیسی 2009 اور 2010 کی، جو بعد میں سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث رہی جس کو عمران خان نے آر اوز کا انتخاب قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس کو تسلیم نہیں کرتا، اب ان کی تنقید کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں ایک کمیشن قائم ہوئی اور ان کی سماعت پر کمیشن نے یہ طے کیا کہ ان انتخابات میں دھاندلی تھی یا نہیں اور کوئی 56 کے قریب نقاط بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ جب قانون کا حصہ ہے اور جب الیکشن کمیشن چیف جسٹس کو یہ لکھتی ہے آپ ہمیں آر اوز دیں اور چیف صاحبان انکار کرتے ہیں کہ یہ فرائض ہم سر انجام نہیں دے سکتے، ہمارے اوپر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے انہوں نے کہہ دیا کہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن ریاست کے کسی اور انتظام کے ساتھ اپنا الیکشن کروائے تو یہ جب نوٹیفیکیشن ہوگیا اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آر اوز کے بعد شیڈول کا اعلان ایک ٹائم لائن کے ساتھ ہوتا ہے۔

ملک احمد خان نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کی گزشتہ 3 پریس بریفنگز کو دیکھا جس میں انہوں نے اپنی ٹائم لائنز کا ذکر کیا اور بتایا کہ حلقہ بندی ایک اہم پروسس ہے اور ہم نے ابتدائی حلقہ بندیاں کردی ہیں، اب ان کے اوپر اعتراضات آگئے ہیں، اتنا وقت لگے گا اور پھر جب وہ سپریم کورٹ میں گئے، وہاں تفصیلات دی تو اس میں واضح کیا کہ یہ ہماری ٹائم لائن ہے، مثال کے طور پر حلقہ بندیاں اتنی دنوں میں ہوں گی، اس پر اعتراضات اتنے دنوں میں دائر کیے جاسکتے ہیں، اس تاریخ کو حلقہ بندیوں کو آویزاں کردیں گے پھر آر اوز کا نوٹی فیکیشن ہوگا پھر شیڈول کا اعلان ہوگا پھر بہت چیزیں ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کا عمل ایک قانون کے تابع ہے تو اگر اس میں دنوں کا فرق آئے گا تو اس کے ساتھ پورا انتخابی عمل سبوتاژ ہوگا،میں کافی سوچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر تحریک انصاف نوٹیفیکیشن کو معطل کروانے جاتی ہے اور یہ جانتے ہوئے جاتی ہے کہ عدلیہ اس پر پہلے ہی اپنا مؤقف دے چکی ہے اور پالیسی کے حساب سے واضح کر چکی ہے تو پھر الیکشن کمیشن کے پاس کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ میں بطور سیاسی جماعت یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ پھر الیکشن کمیشن(ای سی پی) کیا کرے کیا وہ انتخابات معطل کروادے؟

ایک طرف تحریک انصاف باجا بجاتی ہے کہ انتخابات نہیں مل رہے، جب ملتے ہیں تو بھاگتے ہیں، عمران کی سیاست خود ان کے لیے ایک مشکل صورتحال پیدا کر رہی ہے، وہ اپنی ذات میں اس طرح پھنسے ہیں کہ اگر وہ نہیں تو وزیر اعظم کے دفتر میں کوئی نا رہے، پارلیمان نا رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں