جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی ’اوپن‘ سماعت، یکم جنوری تک جواب طلب

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2023
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیرصدارت سپریم جوڈیشل کونسل  اجلاس میں  جج کے خلاف شکایات کا جائزہ لیا گیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیرصدارت سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس میں جج کے خلاف شکایات کا جائزہ لیا گیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کے خلاف ’اوپن‘ سماعت کی اور یکم جنوری تک جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی۔

چئیرمین سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف اوپن کورٹ میں سماعت شروع کی، جہاں خواجہ حارث نے جسٹس مظاہر نقوی کی نمائندگی کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے کارروائی اوپن کرنے کی درخواست کی، رولز کے مطابق جج کے تحفظ کے لیے کارروائی ان کیمرہ ہوتی ہے لیکن جسٹس مظاہر اکبرنقوی نے خود کارروائی اوپن کرنے کی درخواست کی جس کو منظور کرلیا گیا۔

اس موقع پر خواجہ حارث روسٹرم پر موجود رہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ کیا شوکاز کا جواب اب جمع کرا رہے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع نہیں کرایا، متعدد بار درخواستوں کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کا مکمل ریکارڈ مانگا لیکن فراہم نہیں کیا گیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جواب دینے کے لیے معلومات درکار ہیں، کونسل کو بار بار درخواستیں دیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ آئینی ادارہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتی،کونسل کو جواب دینے کے لیے شرائط عائد نہیں کی جا سکتیں، آپ نے کہا اوپن کارروائی ہو ہم نے کر دی، اب نہ بتائیں کہ آپ نے متعدد درخواستیں دائر کیں، بتائیں کیا چاہیے ہم ابھی دیتے ہیں، بتائیں کیا دستاویز چاہیئیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ کے لکھے خطوط سپریم جوڈیشل کونسل کے ریکارڈ کا حصہ نہیں تو کیسے دیکھیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی نوٹنگ اور پھر اس پر جسٹس سردار طارق کی رائے نہیں دی گئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے سیکریٹری کونسل کو ریکارڈ خواجہ حارث کو دینے کی ہدایت کی، جس کے بعد خواجہ حارث نے سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال کا لکھا نوٹ پڑھا اور کہا کہ اس نوٹ میں توصرف شکایت پر رائے دینے کا کہا گیا ہے، یہ تو میں وہ پڑھ رہا ہوں جو مجھے پڑھایا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں کہ پڑھایا جا رہا ہے، دیکھیں ہم شفافیت پر یقین رکھتے ہیں، آپ کو سب اوپن چاہیے تھا ہم نے کر دیا، اب سب اوپنلی پڑھیں اور یہ لفظ ٹھیک نہیں کہ ہم آپ کو پڑھا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ایک ہی فائل ہے جو آپ کو دے دی اب جو چاہیں پڑھ لیں۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے وکیل نے کہا کہ سردار طارق نے میرے بارےقانونی رائے دی جبکہ وہ خود شکایات کا سامنا کر رہے تھے، جس پر چیئرمین جوڈیشل کونسل نے وکیل کو ہدایت کی کہ اپنی شکایت پر رہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے ریکارڈ کی کاپی چاہیے تا کہ شوکاز کا جواب دے سکوں، زبانی تو پڑھ کر سب بھول جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلہ کریں گے کہ آپ کو ریکارڈ کاپی دینی ہے یا نہیں، آپ نے کہا کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں آپ کو ہم نے کاغذ دکھا دیے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ ہماری بات ذرا غور سے سن لیں یہ نہ ہو کہ آپ کو پھر ہم نہ سنیں، آپ کا خط ہم تک پہنچنے سے پہلے سوشل میڈیا پر آ جاتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر ہر ایک چیز سوشل میڈیا پر چلے گی،آپ نے ہمارے سیکریٹری پر الزام لگایا وہاں سے خط لیک ہوتا ہے، ہم نے سیکریٹری سے جب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں اس میڈیا کے نمائندے کو جانتی تک نہیں ہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلہ کریں گے کہ آپ کو ریکارڈ کاپی دینی ہے یا نہیں، آپ کو سارا ریکارڈ ابھی دکھا دیتے ہیں، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے ریکارڈ دکھا کر زبردستی آپ مرضی کی باتیں سننا چاہتے ہیں، لگتا ہے جوڈیشل کونسل پہلے ہی اپنا فیصلہ کر چکی ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہماری درخواستیں کل سماعت کے لیے مقرر ہیں آئینی حق ہمیں دیا جائے، اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی نے روسٹرم پر آ کر بات کرنے کی کوشش تو خواجہ حارث نے اپنے مؤکل جسٹس مظاہر نقوی کو بات کرنے سے روک دیا تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دونوں میں سے جو چاہے بات کر لے ہمیں مسئلہ نہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی میں 5 منٹ کا وقفہ کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم مشاورت کر کے واپس آتے ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی سے یکم جنوری 2024 تک جواب مانگا اور گواہان کی فہرست بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی، جس پر خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل پراسیکیوٹر نہیں ہوسکتی،گواہ کونسل نے نہیں اٹارنی جنرل نے بطور پراسیکیوٹر بلانے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ شکایت کنندگان کا سپریم جوڈیشل کونسل رولز میں کوئی تصور نہیں، کونسل کو صرف معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں، جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے شکایت کنندگان کے گواہان کی فہرست اٹارنی جنرل کو دے دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ گواہان میں شاید اضافہ ہو، اس کے ساتھ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف کاروائی 11 جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔

قبل ازیں سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی کی اپنے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی ’اوپن‘ کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیرصدارت سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات کا جائزہ لیا گیا اور جسٹس مظاہر نقوی کی کارروائی اوپن کرنے کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اسے کھلا رکھنا کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ کیا تھا، انہوں نے جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنے خلاف اوپن کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

خط میں جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا کہ شوکت عزیز کیس میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کی کھلی سماعت کا حق تسلیم کیا، درخواست ہے میرے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی کھلی سماعت کی جائے۔

انہوں نے لکھا کہ آئینِ پاکستان مجھے کھلی سماعت کا حق دیتا ہے، میں نے جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ کونسل کے اِن کیمرا اجلاس کی وجہ سے میرا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، کونسل کارروائی کی وجہ سے مجھے تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، شفاف ٹرائل کاتقاضا ہے کہ انصاف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے لکھا کہ جوڈیشل کونسل کے سامنے میری متعدد درخواستیں زیر التوا ہیں، 13 نومبر کو میں نے نوٹس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا، اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے استدعا کی کہ میری دونوں درخواستیں 15 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہیں، درخواستوں پر فیصلہ آنے تک جوڈیشل کونسل کی کارروائی روک دی جائے۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

20 نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

4 دسمبر کو جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔

6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

گزشتہ روز 13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔

اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں