مونس الہٰی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ کالعدم قرار دینے کےخلاف اپیل، ایف آئی اے سے ریکارڈ طلب

15 دسمبر 2023
رواں سال 6 جون کو ایف آئی اے نے مونس الٰہی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کروایا تھا—فائل فوٹو : فیس بک/مونس الہی
رواں سال 6 جون کو ایف آئی اے نے مونس الٰہی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کروایا تھا—فائل فوٹو : فیس بک/مونس الہی

سپریم کورٹ نے سابق وفاقی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الٰہی کے خلاف منی لانڈرنگ مقدمہ کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے مزید ریکارڈ طلب کر لیا۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مونس الہیٰ سمیت 11 ملزمان پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کا الزام ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بہت تفصیلی ہے، قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت کئی ادارے ان اکاؤنٹس کی تحقیقات کر چکے ہیں، ایک ہی معاملے کی بار بار تحقیقات کیسے ہو سکتی ہیں؟

اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کر رہا تھا۔

جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ جن اکاؤنٹس کی تحقیقات کر رہے ہیں وہ کب کے ہیں؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ اکاؤنٹس 2007 اور کچھ 2010 سے 2014 میں بنے۔

جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ نیب نے 2020 میں تحقیقات ختم کیں، احتساب عدالت نے اس کی توثیق کی، کیسے ممکن ہے نیب نے اس معاملے کا جائزہ ہی نہ لیا ہو؟

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ سے منی لانڈرنگ کا معاملہ سامنے آیا، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ شوگر کمیشن تو چینی کی قیمت کے حوالے سے تھا، جس رحیم یار خان مل کا کیس بنا رہے ہیں، اس کی تو کمیشن نے تحقیقات ہی نہیں کی، ابھی تک ایف آئی اے واضح نہیں کر سکا کہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی۔

جسٹس سردار طارق کا کہنا تھا کہ انسداد منی لانڈرنگ قانون 2010 میں بنا، اطلاق ماضی سے کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ کے بقول مقدمے کی بنیاد ہی 2007 کا اکاؤنٹ ہے، نیب ریفرنس کی تفصیلات اور ریکارڈ پیش کریں پھر فیصلہ کریں گے کہ مونس الٰہی کو نوٹس جاری کرنا ہے یا نہیں۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ لاہور ہائی کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے مقدمہ ختم کیا، جس پر جسٹس یحٰیی آفریدی نے کہا کہ ہائی کورٹ کو مقدمہ پہلی سماعت پر ہی ختم کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہے۔

بعد ازاں سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ 3 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے مونس الہٰی کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ خارج کردیا تھا، 8 دسمبر کو سپریم کورٹ نے چوہدری پرویز الہی کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی کے خلاف منی لانڈرنگ الزامات کے تحت ایف آئی آر بحال کرنے کی ایف آئی اے کی اپیل سماعت کے لیے مقرر کر دی تھی۔

یاد رہے کہ رواں سال 6 جون کو ایف آئی اے نے مونس الٰہی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کروایا تھا، ایف آئی اے کی جانب سے مقدمے میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق مونس الہٰی نے بطور وفاقی وزیر آبی ذخائر منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کی اور کروڑوں روپے رشوت کی مد میں وصول کیے۔

مقدمے میں درج کیا گیا کہ مونس الہٰی نے کرپشن اور رشوت ستانی سے کمائی گئی رقم کی منی لانڈرنگ کی اور فرنٹ مین کے ذریعے اپنی فیملی اور دیگر ملزمان کے اکاؤنٹس میں رقوم جمع کرائیں۔

22 جولائی کو لاہور کی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

30 ستمبر کو لاہور کی اسپیشل سینٹرل عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

اس کے بعد اسپیشل کورٹ سینٹرل کے جج تنویر احمد شیخ نے 3 نومبر کو مونس الٰہی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے، تحریری حکم میں عدالت نے لکھا کہ مونس الہی کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد نہیں ہوا مونس الٰہی کی گرفتاری کے لیے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں۔

بعد ازاں اس مقدمے میں مونس الٰہی کے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں