سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے کی زمین 15 روز میں واگزار کروانے کا حکم

اپ ڈیٹ 09 مئ 2019
سرپیم کورٹ نے 30 روز میں کراچی میں لوکل ٹرین چلانے کا حکم دے دیا — فائل فوٹو/بلدیہ کراچی
سرپیم کورٹ نے 30 روز میں کراچی میں لوکل ٹرین چلانے کا حکم دے دیا — فائل فوٹو/بلدیہ کراچی

سپریم کورٹ نے کراچی میں سرکلر ریلوے لائن سے متصل اراضی پر قبضہ ختم کروانے کے لیے سیکریٹری ریلوے کو 15 روز کی ڈیڈ لائن دے دی۔

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن اور شہر کو اصل نقشے میں بحالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ کو معلوم نہیں ہمارا کیا حکم تھا؟ ابھی تک عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟

سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ 10 ایکٹر تک کی زمین واگزار کروالی ہے، باقی بھی کروا کر سندھ حکومت کے حوالے کردی جائے گی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں سیاحتی مقاصد کیلئے ٹرام چلانے کا حکم

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ اس حال میں سو کیسے سکتے ہیں؟ جتنی بھی زمین ہے وہ واگزار کرواکر سندھ حکومت کے حوالے کی جائے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کی زمین خالی کروانے کے لیے 2 ہفتوں سے زائد کی مہلت نہیں دے سکتے، جہاں سے بھی لے کر آئیں لیکن ایک ماہ کے اندر کراچی میں سرکلر اور لوکل ٹرین چلائیں۔

جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے کراچی کا دورہ کیا ہے؟ جن لوگوں نے تجاوزات قائم کی ہوئی ہیں ان کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا تھا کہ زمین خالی کروانے کی یقین دہانی کروانے والا ایک ڈی ایس بھاگ گیا ہے، آپ کے پاس فوج ہے رینجرز ہے، اسے استعمال کریں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک کی بحالی کیلئے آپریشن کا آغاز

عدالت نے سیکریٹری ریلوے کو میئر کراچی اور دیگر حکام کو ساتھ ملا کر آپریشن کرکے سرکلر ریلوے کی اراضی پر موجود قبضہ آئندہ 15 روز میں واگزار کروانے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور میئر کراچی کو ہدایت کی کہ وہ متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کریں۔

علاوہ ازیں وزیر اعلی سندھ، کمشنر کراچی اور ریلوے حکام کو ہدایت جاری کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر سرکلر یا لوکل ٹرین چلائیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس 17 نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی میں ریلوے کی زمین سے قبضہ چھڑوا کر فوری طور پر کراچی سرکلر ریلوے اور ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم دیا تھا۔

گرین لائن منصوبے میں قائدِاعظم کا مزار تو نہیں گر جائے گا؟ سپریم کورٹ

سماعت کے دوران کراچی کا گرین لائن منصوبہ اور کے آئی ڈی سی ایل منصوبہ بھی زیر بحث آیا جہاں اس کمپنی کے حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اس شہر کو کیا دینا چاہیے تھا آپ کیا دے رہے ہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک کینسر کے مریض کو پیناڈول دوا دی جارہی ہو۔

انہوں نے استفسار کیا کہ آپ نے اس شہر کو کیسے چھیڑا جس پر حکام نے جواب دیا کہ کمپنی وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر بنائی گئی تھی جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم بھی ایسے کام نہیں کر سکتے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ایسے کام کر رہے ہیں جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کرتی تھی، شہر کی حالت تبدیل کرنے سے قبل کیا کبھی اس شہر کے باسیوں کی رائے لی گئی؟

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم

انہوں نے حکام سے استفسار کیا کہ کمپنی کا سی ای او کون ہے اور کہاں ہے جس پر حکام نے عدالت کو بتایا کہ سی او کا نام صالح فاروقی ہے، جو اس وقت اسلام آباد میں ہے۔

عدالت نے کمپنی کے سی ای او کی عدم حاضری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کمپنی کا لائسنس کو کالعدم قرار دے دیا جبکہ ریمارکس دیے کہ یہ سارا کام 25 بلین کے لیے ہورہا ہے۔

حکام نے عدالت کو بتایا کہ منصوبے کا نوے فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ بسیں سڑکوں پر نہیں چل سکتی تھیں ان کے لیے خصوصی پل بنائے گئے ہیں وہ تو اپنے وزن سے ہی گر جائیں گے، شہر کو ان کی نہیں بلکہ زیر زمین ریلوے کی ضرورت تھی۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سرجانی سے لے کر گرومندر پھر نمائش سے ایم اے جناح روڈ تک کا منصوبہ ہے کیا اس کے لیے مزارِ قائد کو تو کچھ نہیں ہوگا، ایسا نہ ہو کہ مزار قائد گرجائے؟

یہ بھی پڑھیں: کراچی: تجاوزات گرانے کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، موٹرسائیکلیں اور کار نذر آتش

عدالت نے چیف سیکریٹری، کے ایم سی، کے ڈی اے، کے ایم سی سمیت دیگر اداروں سے کراچی میں غیر قانونی عمارتوں، تجاوزات کے خاتمے سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے مذکورہ رپورٹ گوگل ایمجیز کے ساتھ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کو غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کی بھی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ نے حکام دیا کہ کراچی میں پارسی ٹیمپل کے ساتھ نئی عمارت بنائی جارہی ہے، اگر یہ عمارت غیر قانونی ہے تو اسے بھی گرا دیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں