امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی جانب سے 5 دہائیوں بعد دو روز قبل چاند پر اترنے کے لیے بھیجا گیا مشن ناکام ہونے کے قریب ہے۔

بی بی سی کے مطابق امریکی کمپنی نے 8 جنوری آسٹرو بائیوٹک ٹیکنالوجی نامی کمپنی کے پیریگرین (Peregrine) لینڈر کو یونائیٹڈ لانچ الائنس کے والکن راکٹ کے ذریعے چاند کی جانب روانہ کیا تھا۔

تاہم یہ لینڈنگ کامیاب نہ ہوسکی، لانچ ہونے کے فوری پر اسپیس کرافٹ کا ایندھن لیک ہونے لگا، جس کی وجہ سے خلائی جہاز کا زیادہ دیر تک خلا میں رہنا ممکن نہیں ہوگا۔

سائسندانوں کا کہنا ہے کہ نصف صدی بعد امریکا کی جانب سے پہلی بار چاند پر بھیجے جانے والا مشن اب ممکن نہیں ہے۔

فوٹو: ناسا
فوٹو: ناسا

پیریگرین لینڈر کیا ہے اور اس کا مقصد کیا تھا؟

پیریگرین لینڈر ایک روبوٹک خلائی جہاز ہے جسے امریکا میں قائم لاجسٹکس کمپنی، آسٹروبوٹک نے ڈیزائن کیا ہے، اسے چاند کی سطح یا چاند کے مدار تک پے لوڈز پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

پیر 8 جنوری کو پیریگرین مشن ون، آسٹرو بوٹک کا پہلا مشن روانہ ہوا تھا، اس کا مقصد سائنسی آلات کو چاند پر واقع گروتھوئزن ڈومز کے علاقے تک پہنچانا تھا، مشن میں موجود آلات کا مقصد اہم ریڈنگز کو اکٹھا کرنا ہے جو خطرات کو کم کرنے اور ناسا کے آرٹیمس پروگرام کے لیے بنیادی کام میں تعاون کر سکتے ہیں، آرٹیمس کا مقصد 2025 کے اختتام سے قبل خلاباز کو چاند پر بھیجنا ہے۔

1.2 ٹن وزنی لینڈر پر میکسیکو اور جرمن خلائی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور دیگر یونیورسٹیوں، کمپنیاں کے 20 پے لوڈز کو چاند پر لے جایا جا رہا تھا۔

فوٹو: ناسا
فوٹو: ناسا

لینڈر میں کیا خرابی ہوئی؟

پیریگرین نے کامیابی کے ساتھ ولکن سینٹور نامی راکٹ (ایک نئی قسم کا میتھین ایندھن والا راکٹ ) فلوریڈا کے کیپ کیناویرل خلائی اسٹیشن سے پیر کو مقامی وقت صبح 2 بجکر 18 منٹ پر روانہ کیا تھا، لانچ کے تقریباً 50 منٹ بعد اور زمین سے 500 کلومیٹر (311 میل) کی بلندی پر لینڈر راکٹ سے الگ ہو گیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔

لانچ کے تقریباً 7 گھنٹے بعد راکٹ میں خرابی سامنے آئی، جب خلائی جہاز اپنی بیٹریوں کو ری چارج کرنے کے لیے شمسی پینل کو سورج کی طرف موڑ نہیں سکتا تھا، اگرچہ زمین پر انجینئرنگ ٹیم نے بالآخر اس مسئلے کو حل کر لیا تھا لیکن مشن میں بعد میں مزید مسائل پیدا ہو گئے۔

پیر کی شام کو کمپنی نے انکشاف کیا کہ ایندھن کے لیک ہونے کی وجہ سے پیریگرین لینڈر کا کنٹرول سسٹم متاثر ہورہا ہے۔

اب خلائی جہاز کا کیا ہوگا؟

پیریگرین کو 23 فروری کو چاند پر اترنا تھا اور یہاں تک کہ اگر یہ چاند پر پہنچ بھی گیا، تب بھی 1.2 میٹرک ٹن کے خلائی جہاز کو کامیاب لینڈنگ کے لیے انجن کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اب آسٹرو بائیوٹک کا کہنا ہے کہ اسپیس کرافٹ کے بند ہونے سے قبل اس کی کوشش ہوگی کہ لینڈر کو جس حد تک ممکن ہو سکے چاند کے قریب ترین پہنچایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایندھن لیک ہونے کے باعث اب یہ مشن صرف 11 جنوری تک سفر کر سکتا ہے، سائسندانوں نے واضح کیا کہ اس مشن کے چاند پر لینڈ کرنے کے امکانات نہیں ہیں۔

2019 اور 2023 کے دوران چاند پر اترنے کی یہ تیسری ناکام کوشش ہے، مگر آسٹرو بائیوٹک کی جانب سے 2024 کے دوران مزید 5 مشنز چاند پر بھیجے جائیں گے۔

کمپنی کے مطابق دوسرے مشن کے لیے اب تک حکومتی اور کمرشل معاہدوں سے 45 کروڑ ڈالرز جمع کیے جا چکے ہیں۔

یاد رہے کہ دسمبر 1972 میں انسانوں نے آخری بار اپولو 17 کے ذریعے چاند کا سفر کیا تھا، خلاباز پہلی بار 1969 میں چاند پر اترے تھے۔

ناسا کے پاس فی الحال ایسا نظام موجود نہیں جو کہ خلابازوں کو چاند کی سطح پر اُتار سکے۔ اسے ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس تیار کر رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں