سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید کی سزا

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2024
سابق وزیر اعظم  اور سابق وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کیس میں تمام 25 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل لی گئی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این
سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کیس میں تمام 25 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل لی گئی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز/سی این این

سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی۔

آج اڈیالہ جیل راولپنڈی میں جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت کی، آغاز پر ملزمان سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو دفعہ 342 کا سوال نام دیا گیا جس پر بانی پی ٹی آئی نے 342 کے تحت اپنابیان عدالت میں ریکارڈ کروایا۔

بانی پی ٹی آئی کا بیان مکمل ہونے کے بعد عدالت نے استفسار کیا کہ خان صاحب، آپ سے آسان سا سوال ہے، سائفر کہاں ہے؟ بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میں نے وہی بیان میں کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم، سائفر میرے دفتر میں تھا۔

اس موقع پر جج نے کہا کہ خان صاحب، شاہ محمود قریشی صاحب، میری طرف دیکھیں، میں آپ کو 10، 10 سال قید کی سزا سناتا ہوں۔

فیصلہ سنانے کے بعد جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین عدالت سے اٹھ کرچلے گئے جب کہ فیصلے کے بعد بانی پی ٹی آئی مسکراتے رہے۔

فیصلے کے بعد شاہ محمود قریشی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ملزمان کی موجودگی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سزا سنائی۔

واضح رہے کہ مذکورہ فیصلہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات سے صرف 7 روز قبل سنایا گیا ہے۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی دونوں رہنما جیل میں ہیں، عمران خان کے کاغذات نام زدگی مسترد ہوگئے تھے مگر شاہ محمود قریشی کو سندھ میں تھر سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑنے کی اجازت مل گئی تھی، لیکن آج کی سزا کا مطلب ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کو اگلے پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو یہ دوسری سزا سنائی گئی ہے، انہیں گزشتہ سال 5 اگست کو توشہ خانہ کیس میں بھی مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر دی تھی۔ تاہم بعد میں ڈویژن بینچ نے عمران خان کی سزا کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز رات گئے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں تمام 25 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل لی گئی تھی۔

سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سوال نامہ دے دیاگیا، سوالن امے میں 36 سوالوں کے جواب مانگے گئے تھے، اس سے قبل 23 جنوری کو ملزمان کے خلاف 25 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے تھے۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھے۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں