توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان، بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزا، 10 برس کیلئے نا اہل

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2024
عمران خان کو عدالت میں پیش کیاگیا جب کہ بشری بی بی عدالت میں پیش نہیں ہوئیں—فائل فوٹو:اے ایف پی
عمران خان کو عدالت میں پیش کیاگیا جب کہ بشری بی بی عدالت میں پیش نہیں ہوئیں—فائل فوٹو:اے ایف پی

بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14،14 سال قید با مشقت کی سزا سنادی گئی۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 10 سال کے لیے نااہل بھی کر دیا۔

احتساب عدالت اسلام آباد نے دونوں ملزمان پر 78 کروڑ 70 روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کی سماعت ہوئی، عمران خان کو عدالت میں پیش کیاگیا جب کہ بشری بی بی عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔

آپ کو کیا جلدی ہے، عمران خان کا جج سے مکالمہ

عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی حاضری لگائی اور استفسار کیا کہ آپ کا 342 کا بیان کہاں ہے، سابق وزیر اعظم نے جواب دیا کہ میرا بیان میرے کمرے میں ہے، مجھے تو صرف حاضری کے لیے بلایاگیاتھا۔

عدالت نے عمران خان سے مکالمہ کیا کہ آپ فوری طور اپنا بیان جمع کرادیں اور عدالتی وقت خراب نہ کریں، بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ کو کیا جلدی ہے، کل بھی جلدی میں سزا سنادی گئی، وکلا ابھی آئے نہیں، وکلا آئیں گے تو ان کو دکھا کر جمع کراؤں گا۔

اس موقع پر بانی پی ٹی آئی یہ کہتے ہوئے کہ ’میں صرف حاضری کے لیے آیا ہوں‘ کمرہ عدالت سے واپس چلے گئے جس پر عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی غیر حاضری میں ہی سزا سنا دی۔

سال قید با مشقت کی سزا سنائے جانے کے بعد عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی گرفتاری دینے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچ گئیں۔

فیصلہ سنائے جانے کے بعد بشری بی بی گرفتاری دینے کے لیے خود اڈیالہ جیل پہنچیں جہاں نیب ٹیم پہلے سے ہی وہاں موجود تھی۔

اس موقع پر اڈیالہ جیل کے اطراف میں پولیس کی بھارتی نفری تعینات تھی، نیب ٹیم کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد بشری بی بی کو اڈیالہ جیل کی خواتین بیرک میں منتقل کر دیا گیا۔

جیل ذرائع کے مطابق بشری بی بی کا طبی معائنہ بھی کرایا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے بشری بی بی کا دفعہ 342 کے تحت بیان قلم بند کیا تھا، جب کہ بانی پی ٹی آئی کا دفعہ 342 کے تحت بیان آج قلم بند کیا جانا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران خان کو سائفر کیس میں 10 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ مذکورہ فیصلے 8 فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات سے تقریبا ایک ہفتہ قبل سنائے گئے ہیں جب کہ پی ٹی آئی ان انتخابات میں کریک ڈاؤن کے درمیان اپنے انتخابی نشان کے بغیر حصہ لے رہی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو اسلام آباد کی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔

6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

سابق حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں