بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ ریفرنس میں 14،14 سال قید با مشقت کی سزا سنادی گئی۔

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو کسی بھی عوامی عہدے کے لیے 10 سال کے لیے نااہل بھی کر دیا۔

عدالت کے اس فیصلے پر قانونی ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ماہرِ قانون مصطفیٰ رمدے نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے پاس اپیل کا حق موجود ہے، میرا خیال ہے وہ لازماً اپیل دائر کریں گے، اس کے لیے ان کے پاس پہلا فورم ہائی کورٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ سے مطمئن نہ ہوں تو وہ سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں، ان کے وکلا کو ثابت کرنا پڑے گا کہ فیصلے میں سقم موجود ہے۔

’سیاسی بیانیہ کھڑا کیا تو فیصلہ واپس نہیں ہوگا‘

ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سارے کیس کے 3 پہلو ہیں، ایک اس کا قانونی پہلو اور ہائی مورال گراؤنڈ کا پہلو ہے، دوسرا سیاسی پہلو ہے اور تیسرا اس کا پروسیجرل پہلو ہے جو ٹرائل کورٹ میں اپنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قانونی پہلو کی بات کریں تو پاکستان کا قانون ہر وزیراعظم کو اجازت دیتا ہے کہ وہ توشہ خانہ تحائف اپنے پاس رکھے یا جمع کروادے، مسئلہ تب آیا جب ان تحائف کو نہ صرف جمع نہیں کروایا گیا بلکہ جو اس کی قیمت لگوائی گئی وہ بھی اس کی اصل ویلیو سے کم تھی، اصل ویلیو سے کم قیمت دے کر یہ تحائف اپنے پاس رکھ لیے گئے۔

حافظ احسان کھوکھر نے مزید کہا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ریفرنس دائر کیا گیا، جب سے یہ ریفرنس چل رہا ہے بارہا اس پر سیاسی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی کہ دیگر سیاستدان 20 فیصد قیمت ادا کرتے تھے جبکہ ہم نے 50 فیصد قیمت ادا کی، بات صرف یہ تھی کہ کہ جو قیمت ادا کی گئی وہ ان تحائف کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق تھی یا نہیں؟ اس کا جواب کوئی نہیں تھا، نتیجتاً سیکشن 9 میں 14 سال اور سیکشن 15 میں 10 سال کی نااہلی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب اگر یہ عدالت میں ثابت کردیتے ہیں کہ ہم کورٹ کے ساتھ تعاون کررہے تھے، آرٹیکل 10 (اے) کی خلاف ورزی کی گئی، ہم اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں اور اپنا ڈیفنس لے کر آنا چاہتے ہیں، اگر اس بنیاد پر یہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہیں تو اس بات کہ روشن امکان موجود ہیں کہ اس فیصلے کو ریورس کردیا جائے گا اور معاملہ ’رائٹ آف کراس ایگزامنیشن‘ پر چلا جائے گا لیکن اگر اس پر کوئی سیاسی بیانہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس فیصلے کو معطل کروانا بہت مشکل ہوجائے گا۔

’عدالتی نظام بے نقاب ہوگیا‘

قانونی ماہر محمود سدوزئی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح سزاؤں کا سلسلہ جاری ہے، اس نے سارے عدالتی نظام کو بے نقاب کر دیا ہے، جو اس وقت ملک میں رائج ہے، توشہ خانہ کیس میں ان کو 14، 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے، اس میں حق دفاع ختم کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فوجداری قانون ہے، اور کہا جاتا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ 99 لوگوں کو آزاد جانے دیا جائے، بجائے اس کے کہ ایک بے گناہ کو سزا دی جائے، مزید کہا کہ اس کیس میں رولز اینڈ ریگولیشنز تو پڑھے نہیں ہیں، اگر پڑھے ہیں تو ان کو نہیں پتا کہ طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟

محمود سدوزئی نے بتایا کہ کسی بھی شخصیت کو جب باہر سے کوئی تحفہ ملتا ہے، اس کے لیے کسٹم کا پرنسپل اپریزر وہ اس کی قدر کی اپریزمنٹ کرتا ہے، اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ یہ پیسے دے دیجیے اور تحفہ لے جائے، گھڑی باقاعدہ اپریزمنٹ کے بعد بانی پی ٹی آئی کو ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ اپریزر کا بیان ریکارڈ پر نہیں ہے، اسی طرح ملٹری سیکریٹری کا بیان ریکارڈ پر نہیں ہے، گزشتہ روز انہیں سائفر کیس میں بھی سزا سنائی گئی۔

ماہر قانون محمود سدوزئی نے کہا کہ سائفر کیس میں عمران خان کا بیان جج صاحب لکھ رہے ہیں، انہوں (بانی پی ٹی آئی) نے کہا کہ میں خود بتاؤں گا کہ میرا کیا بیان ہے، جبکہ شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا اور ان کو سزا ہو گئی، تو یہ اس انصاف کو دفن کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے عدالتی نظام میں اس قدر برے نظائر موجود ہیں، جو دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہیں، یہ کیس بھی اسی طرح ہے، یہ بھی وہی ڈراما ہے، کوئی نئی چیز نہیں ہے، اور یہ حقائق اور قانون کے خلاف ہے۔

’ایک شخص کو سزا دینے کیلئے آئین اٹھاکر پھینک دیا گیا‘

ایڈووکیٹ اویس احمد کا ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ملزمان موجود نہیں بھی ہیں، تو فیصلہ سنایا جاسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں اور بھی بہت سارے معاملات ہیں، توشہ خانہ کیس میں ابھی تو ان کے 342 کے تحت بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوئے، ٹرائل ہی مکمل نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت تو یہ آئین سے غداری ہے، یہ آرٹیکل بنیادی حقوق میں شامل ہیں کہ قانونی عمل مکمل ہونا چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ ایک شخص کو سزا دینے کے لیے آئین کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے، یہ معاملہ آگے جانے والا ہے۔

اویس احمد نے کہا کہ ٹرائل نا مکمل ہونے کی صورت میں جس طرح یہ سزا سنائی گئی ہے، یہ برقرار نہیں رہ سکے گی، اپیل دائر ہو اور عدالت زرا بھی قانون اور آئین کا احترام کرے تو یہ سزا 5 منٹ میں معطل ہو جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں