سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی مکمل کرلی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں ہوا، گواہان زاہد رفیق اور سپریم کورٹ ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی کے صدر شیر افگن عدالت کے روبرو پیش ہوئے پیش ہوئے۔

کونسل میں آج کی کارروائی میں گواہ زاہد رفیق نے لینڈ پروائڈر راجہ صفدر کے حوالے سے دستاویزات فراہم کیں۔

گواہ زاہد رفیق نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کے لندن قیام کا ہم نے کوئی انتظام نہیں کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے 10 ہزار پاؤنڈ ادائیگی کا بھی سنا تھا۔

زاہد رفیق کا کہنا تھا ک کہ ایسی کوئی بات ہمارے ریکارڈ میں نہیں ہے، طاہر نقوی کی بیٹی کے لیے لندن میں 5 ہزار پاونڈ ادا کیے گئے تھے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم کے صدر شیر افگن نے بیان دیا کہ کہ ہمارے ریکارڈ میں جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی اور ان کی اہلیہ کی ایک ایک ممبر شپ ہے، جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کو ایک پلاٹ الاٹ کیا گیا، انہوں نے مجموعی طور پر 4 لاکھ 40 ہزار روپے ادا کیے ہیں۔

کارروائی کے اختتام پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ یہاں موجود کوئی بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہہ سکتا ہے جس پت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بسمہ وارثی کیس کا فیصلہ عدالت میں پیش کیا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا کوئی گواہ باقی رہ گیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے جواب دیا کہ نہیں سر تمام گواہان کے بیانات ہوچکے ہیں۔

قاضی فائز عیسٰی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سے مکالمہ کیا کہ آپ کا کام ختم، اب ہمارا کام شروع ہوتا ہے، کونسل دستاویزات اور گواہیوں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے دی گی۔

کونسل نے ریمارکس دیے کہ جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی اکبر نقوی کونسل کارروائی میں شامل نہیں ہوئے، قاضی فائز عیسی نے کہا جسٹس (ر) مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے، جسٹس (ر) نقوی نے خط میں کہا ہے کہ وہ جوڈیشل کونسل میں پیش نہیں ہوں گے بعد ازاں کونسل کارروائی کے دوران جسٹس (ر) مظاہر نقوی کا 29 فروری کو لکھا گیا خط کا آخری پیرا پڑھا گیا۔

قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ہم نے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست پر کونسل کی کارروائی اوپن کی تھی، اگر جسٹس (ر) مظاہر نقوی پیش نہیں ہونا چاہتے تو ہم زبردستی نہیں کر سکتے، ان کو دفاع کا موقع دیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہونا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس مقدمے میں کونسل نے تمام گواہان کے بیانات قلمبند مکمل کرلیے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر جاری سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں اسمارٹ سٹی لاہور کے مالک زاہد رفیق نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مستعفی جج کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ دفاع کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔

بعدازاں کونسل نے اجلاس کی کارروائی کل تک ملتوی کرتے ہوئے زاہد رفیق کو کل متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت جاری کردیں تھی۔

واضح رہے کہ مظاہر نقوی نے 10 جنوری کو استعفیٰ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اسی روز سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کراتے ہوئے خود پر عائد الزامات کی تردید کی تھی جب کہ اس سے ایک روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس کے وقت کے جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں سابق جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

20 نومبر کو سابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔

اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

4 دسمبر کو سابق جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔

6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔

یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔

اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔

تبصرے (0) بند ہیں