جانوروں کو پالنے کے بجائے یتیم بچوں کو پالیں، بشریٰ انصاری کا مشورہ
سینیئر اداکارہ، میزبان، گلوکارہ و پروڈیوسر بشریٰ انصاری نے لوگوں کو تجویز دی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جانور پالنے اور ان پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بجائے یتیم بچوں کی بھی پرورش کریں تو بہتر ہے۔
بشریٰ انصاری نے حال ہی میں اپنے یوٹیوب پر ویڈیو شیئر کی، جس میں انہوں نے مداحوں، مخیر حضرات اور صاحب استطاعت رکھنے والے افراد کو تجویز دی کہ وہ درجنوں جانور پالنے کے بجائے کسی ایک یتیم یا غریب بچے کو پال لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
انہوں نے مثال دی کہ ان کے ایک رشتے دار کے پاس 29 بلیاں ہیں، جن کے لیے انہوں نے ایک خصوصی ڈرائیور رکھا ہوا ہے جو بلیوں کے لیے امپورٹڈ کھانا لانے اور انہیں سیر پر لے جانے کا کام کرتا ہے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ 29 بلیوں کے لیے کم سے کم ماہانہ 4 لاکھ روپے تک کے اخراجات ہوتے ہوں گے، ان کی ادویات بھی باہر سے آتی ہیں جب کہ ان کے ڈاکٹرز کی فیس بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ جو لوگ جانوروں کو پالنے کے شوقین ہیں وہ ایک بلی اور ایک کتے سے بھی وہ مزہ لے سکتے ہیں جو وہ زیادہ جانوروں سے لینا چاہتے ہیں، اس لیے انہیں زیادہ جانوروں کے بجائے انسان کے بچوں کو پالنا چاہئیے۔
بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ ملک میں بہت غربت ہے، لوگ بچوں کو غذا نہیں کھلا پاتے، ایدھی کے پاس روز لاوارث بچے آتے ہیں، لوگ جھولوں میں بچوں کو پھینک کر جاتے ہیں، وہاں سے اگر بچے لے کر ان کی پرورش کی جائے تو اچھا ہوگا۔
ان کے مطابق بہت ساری شوبز شخصیات نے بھی کتے اور بلیاں پال رکھی ہیں اور وہ لوگ جانوروں کی باتیں ایسے کرتے ہیں، جیسے کوئی انسان کا بچہ ان کا اپنا بچہ ہو۔
بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ اگر جانوروں کے بجائے انسان کے بچے کی پرورش اور تربیت کی جائے تو وہ چند سال بعد پالنے والے کو سلام کرنے لگتا ہے اور انہیں اپنے والد یا والدہ کے طور پر مانتا ہے۔
اداکارہ نے مثال دی کہ جس طرح گلوکارہ حدیقہ کیانی نے خوبصورت بچے کی پرورش کی، اسی طرح شادی سے دور بھاگنے والے افراد بھی جانوروں کے بجائے انسان کے بچوں کی پرورش کریں تو بہتر ہے۔
بشریٰ انصاری کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی خاندان یا شخص جانوروں کو پالنا چاہتا ہے تو اس کی اپنی مرضی لیکن ان کے ساتھ ساتھ وہ انسان کے بچے کو بھی پال سکتا ہے یا اس کی مدد کر سکتا ہے۔
انہوں نے لوگوں کو تجویز دی کہ اگر وہ بچے کی پرورش کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ کم سے کم کسی بھوکے بچے کو کھانا کھلادیں، کسی کی تعلیم کا خرچہ اٹھائیں اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم سے کم کسی پڑھنے والے بچے کو کچھ وقت کے لیے ٹیوشن ہی پڑھادیں۔