سینیٹ کی خالی ہونے والی 48 نشستوں پر پولنگ 2 اپریل کو ہوگی

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2024
سینیٹ سیکریٹریٹ نے 45 کمیٹیوں اور ان کے چئیرپرسنز کے غیر فعال ہونے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا—فائل فوٹو: سینیٹ/فیس بک
سینیٹ سیکریٹریٹ نے 45 کمیٹیوں اور ان کے چئیرپرسنز کے غیر فعال ہونے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا—فائل فوٹو: سینیٹ/فیس بک

پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کی اپنی سالہ مدت پوری کرنے کے بعد خالی ہونے والی 48 نشستوں پر انتخابات 2 اپریل کو ہوں گے۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان سینیٹ کی ان خالی سیٹوں پر انتخابی شیڈول 14 مارچ کو جاری کرے گا جب کہ کاغذات نامزدگیاں آج سے حاصل کی جاسکیں گی۔

مجوزہ شیڈول کے مطابق 15 اور 16 مارچ کو کاغذات نامزگیاں جمع کرائی جاسکیں گی اور 48 نشستوں پر پولنگ 2 اپریل کو ہوگی۔

سابق فاٹا کے 4 ارکان کی جانب سے خالی ہونے والی نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا، سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد سینیٹ میں فاٹا کے لیے مختص نشستیں آئینی ترمیم کے تحت ختم ہوچکی ہیں۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق 48 نشستوں پر انتخاب عمل میں لایا جائے گا جن میں پنجاب کی 7 جنرل نشستوں اور خواتین کی 2 علما اور ٹیکنوکریٹ کے لیے 2 اور غیر مسلم کی ایک نشست پر انتخاب ہوگا۔

سندھ کی 7 جنرل، 2 خواتین ،2 علما اور ٹیکنوکریٹ اور ایک غیر مسلم کی نشست پر انتخاب ہوگا، خیبر پختونخوا کی 7 جنرل ، 2 خواتین ،2 علما اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر انتخاب ہوگا۔

اس کے علاوہ بلوچستان کی 7 جنرل ، 2 خواتین ،2 علما اور ٹیکنوکریٹ نشستوں پر انتخاب ہوگا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر انتخاب ہو گا۔

واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی، قائد ایوان اسحٰق ڈار، قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم اور سینیٹر رضا ربانی سمیت سینیٹ کے 52 ارکان کی مدت 11 مارچ کو مکمل ہوجائے گی، ایوان بالا میں اب فاٹا کی چاروں نشستیں ختم ہو جائیں گی اور نئی سینیٹ میں ارکان کی تعداد 100 سے کم ہو کر 96 رہ جائے گی۔

اس کے علاوہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد 6 سینیٹر کی نشستیں خالی ہو گئی ہیں جن پر ضمنی الیکشن 14 مارچ کو ہوگا، مختلف سیاسی جماعتوں کے کُل 19 امیدواروں نے سینیٹ کی دیگر 5 نشستوں (3 بلوچستان اور 2 سندھ سے) کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جوکہ سینیٹ اراکین کے عام انتخابات میں حصہ لینے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتنے کے بعد خالی ہوئی ہیں۔

یہ نشستیں آئین کے آرٹیکل 223 کے تحت خالی ہوئی ہیں جو واضح طور پر دوہری رکنیت پر پابندی عائد کرتا ہے، آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 4 کے تحت اگر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے دونوں ایوانوں کا کوئی رکن دوسری نشست کے لیے امیدوار بنتا ہے (جسے وہ اپنی پہلی نشست کے ساتھ برقرار نہیں رکھ سکتا) تو کسی دوسرے ایوان کی نشست کے لیے انتخاب جیتنے کے ساتھ ہی اس کی پہلی نشست خالی ہو جاتی ہے۔

یوسف رضا گیلانی نے 29 فروری کو ملتان سے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھایا تھا اور گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو ووٹ دیا تھا، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے شدہ پاور شیئرنگ فارمولے کے مطابق انہیں سینیٹ کا اگلے چیئرمین بنایا جائے گا۔

اگرچہ اس بات کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نئے تشکیل شدہ 8 جماعتی حکمران اتحاد کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے امیدوار ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کسی نے بھی ان کے خلاف کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کرائے ہیں، جس سے اِن دعوؤں کی تصدیق ہوتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے جہاں اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر انتخاب کے لیے پولنگ ہوگی لہٰذا وہ یہ نشست آسانی سے جیت سکتی تھی۔

سینیٹرز کی مدت مکمل ہونے کے بعد متعدد قائمہ کمیٹیاں غیرفعال

دوسری جانب سینیٹ کے 48 ممبران اپنی 6 سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد آج ریٹائر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے متعدد قائمہ کمیٹیاں غیرفعال ہوگئیں۔

سینیٹ سیکریٹریٹ نے 45 کمیٹیوں اور ان کے چئیرپرسنز کے غیر فعال ہونے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق 11 مارچ سے تمام کمیٹیاں اور چیئرپرسن غیر فعال ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کی کل تعداد 100 ہے، جس میں 4 صوبوں سے 23، سابق فاٹا اور اسلام آباد سے 4، 4 اراکین شامل ہیں، صوبے کے لیے مختص کردہ 23 نشستوں میں 14 جنرل نشستیں، 4 خواتین کے لیے، 4 ٹیکنوکریٹس اور ایک اقلیتی رکن کے لیے مختص ہے۔

نصف سینیٹرز اپنی 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائر ہونے والے ہیں اور 14 مارچ کو 6 خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن 48 نئے سینیٹرز کے انتخاب کا شیڈول جاری کرے گا جن میں سے ہر صوبے سے 11 سینیٹرز (جنرل اور ٹینوکریٹس کی نشتوں کے لیے) ہوں گے، اسلام آباد سے 2 اور پنجاب اور سندھ سے 2 اقلیتی اراکین ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں