اسلام آباد ہائی کورٹ نے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وکلا سے جیل میں ملاقات کروانے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے قیدیوں کو کس ارینجمنٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے؟ چیف کمشنر اسلام آباد دوبارہ رپورٹ جمع کروائیں۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر بانی پی ٹی آئی عمران خان اڈیالہ جیل میں کتنے مقدمات میں قید ہیں کے حوالے سے رپورٹ جمع کروا دی۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے قیدیوں کو کس ارینجمنٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے؟ کچھ تو ہو گا کوئی نوٹیفکیشن ہوگا، وہ عدالت کے سامنے رکھیں گے،

شیرافضل مروت نے کہا کہ وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا کہ جیل میں کوئی ملاقات نہیں ہو سکتی، اس پر جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ وہ نوٹیفکیشن تو اب ختم ہو چکا ہے نا؟

وکیل شیرافضل مروت نے بتایا کہ وہ تو انہوں نے اپنی ضد پوری کرلی ہے۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے مزید کہا کہ عدالت اسلام آباد کے قیدیوں سے متعلق یہ معاملہ ایک ہی بار طے کرے گی، اس طرح تو ہم بیٹھ کر صرف یہی کیسز سنتے رہیں گے، عدالت نے اسلام آباد کے قیدیوں کی حد تک ارینجمنٹ کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے،کوئی تھریٹ ہوگا ہم تو اس کا تعین نہیں کر سکتے، اسے وزارت داخلہ نے دیکھنا ہے، شیر افضل صاحب آپ نے بھی جیل انتظامیہ سے تعاون کرنا ہے۔

اس موقع پر پنجاب کے سرکاری وکیل نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے تو ایسا مسئلہ نہیں آ رہا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے قیدیوں کو کس ارینجمنٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے؟ چیف کمشنر دوبارہ رپورٹ جمع کروائیں۔

اس پر چیف کمشنر اسلام آباد کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا، انہوں نے مؤقف اپنایا یہ معاملہ بہت پرانا ہے، لیٹر تلاش کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وکلا سے جیل میں ملاقات کروانے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آن لائن ملاقاتیں ایک جیل میں قانونی مگر دوسری میں غیر قانونی کیسے؟

اس سے گزشتہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی کی وکلا سے طے شدہ ملاقات نہیں کروانے پر عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے جواب طلب کرلیا تھا۔

پس منظر

26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

بعد ازاں 4 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے وکلا کی ملاقات نہ کرانے پر جیل انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر فریقین سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

12 مارچ کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خدشے پر بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر 2 ہفتے کے لیے پابندی عائد کردی گئی ۔

یاد رہے کہ 13 مارچ کو مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان سے عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات نہیں کروانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس سمن رفعت امتیاز نے درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو 15 مارچ کے لیے نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔

اس موقع پر درخواست گزار علامہ ناصر عباس کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 مارچ 2024 کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرانے کے احکامات جاری کیے تھے مگر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے جان بوجھ کر حکم عدولی کرتے ہوئے ملاقات نہیں کروائی لہذا سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

22 مارچ کو عدالتی احکامات کے باوجود بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے ملاقات نہ کرانے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

تبصرے (0) بند ہیں