وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے، جن لوگوں نے تشدد کا راستہ اپنایا ہوا ہے، جنہوں نے معصوم شہریوں کے قتل و غارت کا راستہ چنا ہے، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ڈائیلاگ سے مسئلہ حل ہو لیکن اس سے نہیں ہوتا، ہمیں آئین نے یہ ذمہ داری دی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کا تحفظ کریں، اپنے اثاثہ جات کا تحفظ کریں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت اور عزت کی حفاظت کرنا ہم پر آئینی طور پر ذمہ داری ہے۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اپوزیشن میں ہے، لیکن سیاسی ہم آہنگی کے لیے بہت سارے معاملات پر اکٹھے ہو جاتے ہیں، بہت ساری جگہوں پر یہ ہماری اپوزیشن کرتے ہیں، یہ انتہائی مثبت ہے، بنیادی طور پر اتحادی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی ہے، ہم بیٹھیں گے اور اپنے فیصلے کریں گے اور مشاورت کے ساتھ صوبائی کابینہ کا فیصلہ کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ جب کوئی سرینڈر کرتا ہے، جب کوئی ہتھیار ڈالتا ہے اور تشدد کا راستہ ترک کرتا ہے، تو دو سے تین عوامل ہیں، جس کی وجہ سے وہ یہ سوچتا ہے، ایک تو یہ ہے کہ تشدد سے بلوچستان کوئی بھی حقوق حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، آج تو بلوچستان کو جو حقوق ملے ہیں، وہ سب پاکستان کی پارلیمان نے دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی یہ سوچ کر یہ ایک سفر لاحاصل ہے اور خود پُرتعیش زندگی گزاریں اور عام بلوچ پہاڑ پر پڑا ہوا ہو، مارا جا رہا ہو یا مار رہا ہو، تو اس تشدد کے راستے اس سوچ کے ذریعے کر واپس آئے تو یہ ایک عوامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پوزیشن آف اسٹرینتھ کی بات ہوتی ہے، تو تب لوگ واپس آتے ہیں، جبکہ تیسرا سیاسی ڈائیلاگ ہوتا ہے، جس کو آپ پُرامن بلوچستان پالیسی کے نام ٹرائبل سوسائٹی کو سامنے رکھتے ہوئے پیغام بھجواتے ہیں کہ جی آپ واپس آجائیں یہ راستہ ترک کردیں، تو لوگ واپس مین اسٹریم میں آتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہم بیڈ گورننس کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور گڈ گورننس کا ماڈل لانا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ماضی میں جو پریکٹسز رہی ہیں، جو اچھی پریکٹسز تھیں، ان کو ساتھ لے کر چلیں اور بری تھیں تو ان کو روک دیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بغاوت کی بنیادی وجہ احساس محرومی نہیں ہے، فرض کرتے ہیں کہ اگر آج جو ڈیولپمنٹس راولپنڈی، اسلام آباد میں ہے، وہی چکوال میں ہو جاتی ہے، یا جو کوئٹہ میں ہے وہی ڈیرہ بگٹی یا تربت میں ہو جاتی ہے، تو کیا بغاوت ختم ہوگی، اس کا جواب ہے نہیں، سرفراز بگٹی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں عوامل کا پتا ہونا چاہیے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ جس کی جو ڈیوٹی ہے، وہ اس کو ادا کرے، 2 ہزار سے زائد ایسے اساتذہ تھے، جو گزشتہ کئی سالوں سے آ ہی نہیں رہے اور تنخواہ ہم سے لے رہے ہیں، بہت سارے ڈاکٹرز ایسے ہیں جو تین، تین جگہ پر تنخواہیں لے رہے ہیں، ہم نے ان کرپٹ پریکٹسز کو روکنا ہے، اس کا فائدہ عام بلوچستانی کو خود آنا شروع ہو جائے گا۔

سرفراز بگٹی نے کہا کہ جو بھی بلوچستان کا مسئلہ ہوگا، ہم اس کے لیے کھڑے ہوں گے، ہم زندہ باد، مردہ باد والا کلچر جو بن گیا ہے، ہم اس کی حوصلہ شکنی کریں گے، ہم شائستگی سے اپنے مسائل کو رکھیں گے اور اس پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

دہشت گردی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا، گوادر میں دیکھ لیں کہ 8 خودکش بمبار آتے ہیں، تو آپ کو پتا وہ کتنا نقصان کر کے جاتے ہیں، ایسے میں اس کا مقابلہ کرنا جواں مردی کا کام ہے، یہ تمام بمبار 30 منٹ کے اندر مارے جا چکے تھے۔

انہوں نے کہا اسی طرح تربت میں بھی منصوبہ بڑا تھا، تاثر تھا کہ نیول بیس ہے، یہ سب جھوٹ ہے، تربت میں اے ایس ایف کی طرف ایک نالہ تھا، اس نالے سے انہوں نے انٹری ماری، فوراً اس کا نوٹ کر لیا گیا، اس آپریشن کو رات میں جان بوجھ کر سست رکھا گیا، ہماری جو کامیابی کی کہانیاں ہیں، ہمیں ان بار بار تذکرہ کرنا چاہیے۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ابھی تحقیقات ہونی ہیں، تصدیق ہونی ہے کہ سہولت کار کون تھے، کہاں سے ان کو ٹارگٹ دیا گیا تھا، جیسے جیسے چیزیں سامنے آئیں گی، آپ کے سامنے شیئر کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں