امریکی سفارت خانہ کے 3 رکنی وفد نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام اباد میں امریکی سفارت خانہ کے عملے نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا، امریکی سفارتی خانہ کے وفد کو نور مقدم قتل کے مجرم ظاہر جعفر تک قونصلر رسائی دی گئی۔

امریکی سفارت خانہ کے 3 رکنی وفد کی مجرم ظاہر جعفر سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ روم میں ملاقات کروائی گئی۔

امریکی سفارت خانہ کے وفد میں مائیکل مرفی، اسامہ حنیف اور نوید غازی شامل تھے، ملاقات ختم ہونے پر امریکی سفارت خانہ کا وفد اڈیالہ جیل سے واپس اسلام آباد روانہ ہو گیا۔

خیال رہے کہ 24 فروری 2022 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی تھی۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں ظاہر جعفر کو قتل عمد کے سلسلے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور نور مقدم کے ورثا کو 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ ملزم کی سزائے موت کی توثیق اسلام آباد ہائی کورٹ کرے گی۔

اس کے علاوہ دفعہ 364 (قتل کی غرض سے اغوا) کے تحت ملزم کو 10 برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے، دفعہ 342 (حبسِ بیجا) کے تحت ایک سال قید، دفعہ 376 (زنا بالجبر) کے تحت 25 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

مزید برآں قتل اور دیگر جرائم میں اعانت پر فیصلے میں شریک ملزمان جان محمد (باغبان) اور افتخار (چوکیدار) کو 10، 10 سال قید کی اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 13 مارچ 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کو 2 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

نور مقدم قتل کیس

واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل تھے۔

قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور ٹرائل 4 ماہ 8 روز جاری رہا جس کے دوران 19 ملزمان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

اس دوران ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی بیمار بھی ثابت کرنے کی کوشش کی، تاہم میڈیکل ٹیسٹ میں اسے مکمل فٹ قرار دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں