پاک فوج نے بہاول نگر واقعہ کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے واقعے کی مشترکہ انکوائری کا اعلان کردیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ حال ہی میں بہاول نگر میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جسے فوج اور پولیس حکام کی مشترکہ کوششوں سے فوری طور پر خوش اسلوبی سے حل کرلیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے باوجود بعض دھڑوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لیے پروپیگنڈا شروع کر دیا۔

ترجمان پاک نے کہا کہ قوانین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا۔

بیان میں واضح کیا گیا کہ حقائق کا پتا لگانے کے لیے ذمہ داروں کی نشاندہی کی جائے گی، تحقیقات کے لیے سیکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کی جائے گی۔

پسِ منظر

واضح رہے کہ 2 روز قبل 10 اپریل کو کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں فوج کی وردیوں میں ملبوس افراد کو بہاول نگر میں مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا۔

ایک ویڈیو میں ایک شخص کو زمین بیٹھے ہوئے دیکھا گیا جس کی ناک خون آلود تھی، دوسرے کلپ میں ایک شخص اور دو فوجی اہلکار وں کو دیکھا گیا جو پولیس والوں کو قطار میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

کچھ سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ایک فوجی کے رشتے دار سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کے باعث شروع ہوا۔

’ڈان‘ آزادانہ طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپس کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکا۔

وائرل ویڈیو کلپس پر سیاست دانوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا، پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے کہا کہ واقعے کے بعد پنجاب پولیس سربراہ کو فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، انہوں نے دعویٰ کہ صوبائی حکومت اس معاملے کو ’سنجیدگی‘ سے نہیں لے رہی۔

پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ یہ واقعہ ’شفاف اور جامع انکوائری کا متقاضی ہے اور اس کی رپورٹ بغیر کسی رد و بدل کے جاری کی جانی چاہیے‘۔

10 اپریل کی رات جاری ہونے والے ایک بیان میں پنجاب پولیس نے کہا تھا کہ اس واقعہ کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان لڑائی ہوئی ہے’۔

بیان میں کہا گیا کہ ’جب غیر مصدقہ ویڈیوز وائرل ہوئیں تو دونوں اداروں نے مشترکہ تحقیقات کا آغاز کیا، دونوں محکموں کے افسران نے حقائق کا جائزہ لیا اور پرامن طریقے سے معاملے کو حل کیا۔

اس میں کہا گیا کہ ’پنجاب پولیس اور پاک فوج صوبے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، ہم سوشل میڈیا صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جعلی پروپیگنڈہ نہ پھیلائیں۔

پنجاب پولیس کی ایک اور پوسٹ میں پولیس اور فوجی اہلکاروں کو ’پاک فوج، پنجاب پولیس زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھایا گیا۔

’ڈان‘ نے معاملے سے متعلق مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے مقامی حکام سے رابطہ کیا ہے۔

یہ بات سامنے آئی کہ انسپکٹر سیف اللہ کی شکایت پر 10 اپریل کو بہاول نگر کے مدرسہ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ (پی سی سی) کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔

انسپکٹر سیف اللہ نے بتایا کہ انہیں مدرسہ پولیس اسٹیشن کا نیا ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے، انہوں نے 8 اپریل کو درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا جس کے تحت سابق ایس ایچ او رضوان عباس، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد نعیم اور کانسٹیبل محمد اقبال اور علی رضا نے اس میں نامزد تین افراد کو بغیر تفتیش گرفتار کیا تھا اور 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی تینوں کو مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔

نئے ایس ایچ او نے کہا کہ قانون سے آگاہ ہونے کے باوجود چاروں اہلکاروں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے رہے، اس طرح کیس کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا اور حاصل اختیارات کا غیر ضروری استعمال کیا۔

ایس ایچ او نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی غیر قانونی حرکتوں کے بارے میں حکام کو الرٹ کیا گیا اور بعد ازاں ان چاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔

اس سے قبل ایک ایف آئی آر 8 اپریل کو اے ایس آئی نعیم کی شکایت پر مختلف دفعات کے تحت درج کی گئی تھی۔

اے ایس آئی نعیم نے بتایا تھا کہ وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ گشت پر تھا کہ دو افراد پولیس پارٹی کو دیکھ کر فرار ہوئے، انہوں نے بعد میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا جس کے قبضے سے پستول بھی برآمد ہوا۔

اہلکار نے بتایا کہ زیر حراست شخص بندوق کا لائسنس پیش نہیں کرسکا اور فرار ہونے والے شخص کا نام لیا۔

اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ دوسرے شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے پر ملزم نے مزاحمت کی اور اپنے رشتہ داروں کو بلا لیا جنہوں نے گرفتاری کی مخالفت کی اور ایک کانسٹیبل کو مارتے ہوئے گھسیٹ کر گھر کے اندر لے گئے۔

اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ اس نے کانسٹیبل کو چھڑانے کے لیے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا جس کے بعد اس نے اس وقت کے ایس ایچ او رضوان عباس اور دیگر پولیس اہلکاروں کو جائے وقوع پر بلایا۔

اہلکار نے مزید بتایا کہ پولیس افسران نے ان افراد سے دوبارہ کانسٹیبل کو چھوڑنے کا کہا جس پر وہ تشدد کرنے پر اتر آئے۔

اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ تقریباً 20 افراد نے پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی، فائرنگ کی، مزید ایک کانسٹیبل اور ایس ایچ او رضوان عباس کو یرغمال بنا لیا۔

اے ایس آئی نعیم نے کہا کہ بعد ازاں اس نے مزید پولیس فورس بھیجنے کی درخواست کی اور بالآخر یرغمال تینوں پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرالیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور ان سے ان کے پاس موجود سامان بھی چھین لیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں