2024-25 کے وفاقی بجٹ کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں وزارت خزانہ نے تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں اور خود مختار اداروں سے کہا ہے کہ وہ 15 مئی تک ایسے فنڈز واپس کر دیں جو ان کے خیال میں 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے موجودہ مالی سال کے اندر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ (پی ایف ایم اے) کے تحت، عوامی فنڈز سے قائم یا کام کرنے والے تمام اداروں کو مالی سال کے کھاتوں کو بند کرنے کے لیے ہر سال 31 مئی تک اپنے اضافی فنڈز واپس کرنے ہوتے ہیں، فنڈز کا یہ سرنڈر اگلے مالی سال کے لیے فنڈز کی منظوری اور اسے مختص کرنے کی بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے۔

تاہم، وفاقی حکومت کی اکاؤنٹنگ پالیسیز اینڈ پروسیجرز مینوئل (اے پی پی ایم) کا تقاضا ہے کہ ایسے غیر استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ رہنے کی توقع والے فنڈز کو ہر سال 15 مئی تک واپس کردیا جائے لہذا سیکریٹری خزانہ نے دیگر وزارتوں کے تمام ہم منصبوں کو زیادہ وضاحت کے لیے اے پی پی ایم پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

نتیجتاً، 24ویں بیل آؤٹ پروگرام کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ آئندہ مذاکرات کے پیش نظر، غیر استعمال شدہ رقوم کو واپس کرنے کی آخری تاریخ 15 مئی تک بڑھا دی گئی ہے، آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی دونوں اخراجات کے لیے مختص رقم رواں سال کے حقیقی اخراجات پر مبنی ہوگی۔

ایک حکم میں، وزارت خزانہ نے تمام پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران سے کہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ فنڈز واپس کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں اور انہیں سینٹرل بجٹ سافٹ ویئر سسٹم، ایس اے پی میں داخلے کے لیے 15 مئی تک بجٹ کمپیوٹرائزیشن کے ڈائریکٹر کو بتایا جائے، اس حکم کا اطلاق تمام وزارتوں، ڈویژنوں، ان کے منسلک محکموں اور ماتحت دفاتر، اور پی ایف ایم اے کے سیکشن 12 کے تحت ضرورت کے مطابق خود مختار تنظیموں پر ہوتا ہے۔

مالیاتی قوانین اور پی ایف ایم اے 2019 کے تحت، اصل منظور شدہ بجٹ میں شامل رقم کو وفاقی مالیات کے نگہبان کے طور پر وزارت خزانہ کو واپس دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رقم ادارے کی جانب سے مالی سال میں خرچ نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی خرچ ہوگی۔

پی ایف ایم اے 2019 کا سیکشن 12 پابند کرتا ہے کہ تمام وزارتیں، ڈویژنز، ان سے منسلک محکمے، اور ذیلی دفاتر اور خود مختار ادارے فنانس ڈویژن کو ہر سال مئی کی 31 تاریخ تک گرانٹس میں تمام متوقع بچتیں، اسائنمنٹ اکاؤنٹس یا ان کے زیر کنٹرول گرانٹ ان ایڈ سپرد کر دیں گے۔

غیر معمولی صورت حال میں، فنانس ڈویژن کو مالی سال کے اختتام سے پہلے مقررہ وقت کی حد میں توسیع کرنے کا اختیار حاصل ہے، اس سیکشن کے تحت فنانس ڈویژن کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مالی سال کے اختتام سے پہلے ایسے سرینڈر کی قبولیت کے بارے میں بتائے اور جہاں ضرورت جائز ہو، اگلے مالی سال کے بجٹ میں مساوی رقم فراہم کرے۔

اے پی پی ایم کے تحت، کسی بھی خرچ کرنے والے ادارے کو کام کرنے یا دوسرے کی جانب سے رقم خرچ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرنسپل اتھارٹی کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز پر مناسب بجٹ کنٹرول کا استعمال کرے۔

اخراجات کرنے والی ہستی کے لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ پرنسپل ادارے کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز سے تجاوز نہ کیا جائے، رقم مطلوبہ مقصد کے لیے خرچ کی جائے، اور کوئی بھی متوقع بچت فوری طور پر اصل ادارے کے حوالے کر دی جائے۔

اے پی پی ایم کا سیکشن 3.3.12.6 ایسے تمام اداروں کو پابند کرتا ہے کہ وہ تمام متوقع بچت فوری طور پر حکومت کے حوالے کریں جیسا کہ ان کی توقع ہے، لیکن اس کو واپس کرنے کی مدت ہر سال 15 مئی ہے۔

وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ 15 مئی کے بعد فراہم کردہ فنڈز کی سیونگز کو 30 جون کے بعد سپرد کرنا ضروری ہے، اور ساتھ ہی پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کو تمام ممکنہ یا حقیقی بچتوں کے اخراجات میں سخت کنٹرول استعمال کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔

ان قوانین کے تحت، کوئی بھی بچت مستقبل کے لیے محفوظ نہیں رکھی جا سکتی اور ملتوی کیے گئے اخراجات کو اخراجات کی نئی اشیا کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ مختص نہیں کیا جا سکتا، یا اخراجات صرف اس لیے نہیں کیے جا سکتے کہ فنڈز کسی خاص گرانٹ کے اندر دستیاب ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ گرانٹس جو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کی جا سکتے ہیں، انہیں سرنڈر کر دیا جانا چاہیے۔

پی ایف ایم اے 2019 کے تحت ضروری پچھلے سال کے شروع میں حکومت نے تمام وزارتوں، ڈویژنوں، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ورکنگ کیپیٹل اور سرمایہ کاری کے لیے رکھے گئے اضافی فنڈز کو فوری طور پر سپرد کر دیں اور رقم وفاق کے واحد ٹریژری اکاؤنٹ میں جمع کروائیں۔

آئین کے آرٹیکل 78 میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے یا اس کی جانب سے موصول ہونے والے تمام فنڈز فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ (ایف سی ایف) یا فیڈریشن کے پبلک اکاؤنٹ (پی اے ایف) کے حصے کے طور پر جمع کیے جاتے ہیں، ایف سی ایف اور پی اے ایف دونوں کے کیش بیلنس کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں مرکزی اکاؤنٹ نمبر 1 (نان فوڈ) کے تحت برقرار رکھا جاتا ہے، جبکہ آرٹیکل 79 کے تحت رقم کی تحویل اور ادائیگی کو مرکزی اکاؤنٹ سے اور پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ (پی ایف ایم اے)، جو 2019 میں پارلیمنٹ سے قرض دینے والی ایجنسیوں کی ضرورت پر منظور ہوا، اب ایف سی ایف اور پی اے ایف سے متعلق تمام معاملات کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے لیے وفاقی حکومت کی مجموعی نگرانی میں فنانس ڈویژن میں ایف سی ایف اور پی اے ایف کے آپریشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید برآں، ایکٹ کا سیکشن 23(2) بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی وفاقی حکومت کی پیشگی منظوری کے بغیر سرکاری اکاؤنٹس بشمول اسائنمنٹ اکاؤنٹس سے سرمایہ کاری یا جمع کرنے کے لیے عوامی رقم کو کسی دوسرے بینک اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کرے گی۔

اس کے علاوہ، ایکٹ کا سیکشن 45 دیگر تمام قوانین اور اس ایکٹ سے متضاد کسی بھی قانون پر غالب اثر فراہم کرتا ہے، جبکہ کیش مینجمنٹ اینڈ ٹریژری سنگل اکاؤنٹ رولز 2020 کے قاعدہ 4(4) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی سیکشن 23 کی ذیلی دفعہ (2) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوامی رقم منتقل نہیں کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں