کراچی سے 16 ہزار سے زائد افغان باشندوں کی ’ جبری وطن واپسی’ کا آغاز
کراچی سے 16 ہزار سے زائد افغان باشندوں کی ’ جبری وطن واپسی’ کا آغاز ہوگیا۔
کراچی میں سٹی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جمعہ کو تخمینہ شدہ 16138 افغان سٹیزن شپ کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز کی ’جبری وطن واپسی‘ شروع کر دی، جن میں سے 150 سے زائد افراد کو اب تک حکومت کی تمام غیر دستاویزی غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے 6 مارچ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ تمام غیر قانونی غیر ملکیوں اور اے سی سی ہولڈرز کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں، اس کے بعد، یکم اپریل 2025 سے ملک بدری شروع ہو جائے گی۔
13 فروری کو وزیر داخلہ نے حکومت سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے منصوبے (IFRP) کے تحت تمام اے سی سی ہولڈرز کی ان کے آبائی وطن واپسی کا آغاز کرے۔ اس منصوبے کے تحت، 31 مارچ تک رضاکارانہ واپسی ختم ہو گئی اور یکم اپریل سے ’ جبری وطن واپسی’ شروع ہو گئی ہے۔
محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے تیار کردہ اور ڈان نیوز ڈاٹ کام کی جانب سے دیکھے گئے IRFP کے مطابق، محکمہ میں ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے جبکہ کراچی اور جیکب آباد میں ’ ہولڈنگ پوائنٹس’ قائم کیے گئے ہیں، جبکہ سکرنڈ، شہید بینظیر آباد میں 1500 افراد کی مجموعی گنجائش کا حامل ایک ’ ٹرانزٹ پوائنٹ ’ قائم کیا گیا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ضلع جنوبی سید اسد رضا نے جمعہ کو ڈان نیوز ڈاٹ کام کو بتایا کہ اب تک 162 اے سی سی ہولڈرز کو ہولڈنگ کی سہولت پر لایا گیا ہے کیونکہ ان میں سے کچھ کو پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) ہولڈر ہونے کی وجہ سے واپس یا رہا کر دیا گیا تھا۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ 3 اپریل کو مختلف علاقوں سے کل 196 افغانوں کو کیمپ میں لایا گیا۔ ان میں سے 20 کو پی او آر رکھنے کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح، 4 اپریل (جمعہ) کو کل 90 افغان کیمپ پہنچے، جن میں سے 10 کو رہا کر دیا گیا۔ اس طرح، افغانستان واپس بھیجنے کے لیے کل 242 افغانوں کو لایا گیا ہے۔
ڈی آئی جی سید اسد رضا نے بتایا کہ پولیس کی اسپیشل برانچ کی جانب سے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے کیے گئے ایک مشترکہ نقشہ سازی کے عمل میں کراچی میں کل 16138 اے سی سی ہولڈرز پائے گئے، جن میں سے بیشتر مشرقی اور مغربی اضلاع میں رہ رہے ہیں۔
جنوبی پولیس نے ہر ضلع کی تفصیل بتائی کہ ضلع شرقی میں 11233 اے سی سی ہولڈرز، غربی میں 2792 کارڈ ہولڈرز، کورنگی میں 910، ملیر میں 396، ضلع وسطی میں 406، کیماڑی میں 203، ضلع جنوبی میں 120 اور سٹی ڈسٹرکٹ میں 78 موجود ہیں۔
دریں اثنا کیماڑی پولیس میڈیا سیل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ کیماڑی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کیپٹن (ریٹائرڈ) فیضان علی نے جمعہ کو امین ہاؤس ہولڈنگ کیمپ کا دورہ کیا۔
بیان کے مطابق، ایس ایس پی کیماڑی نے غیر قانونی تارکین وطن کی منتقلی کے عمل کا جائزہ لیا اور سیکیورٹی اور دیگر انتظامات کے انچارج اہلکاروں کو ہدایات جاری کیں۔
ایس ایس پی کے حوالے سے کہا گیا کہ ہولڈنگ کیمپ منتقل کیے جانے والے افراد کے لیے نقل و حمل، خوراک اور صحت کی سہولیات کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ تمام سہولیات، سیکیورٹی اور وقار کے ساتھ غیر ملکی تارکین وطن کی ان کے آبائی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔
تاہم، وکیل اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار ریفیوجیز (جے اے سی) کی بانی رکن منیزہ کاکڑ نے ڈان نیوز ڈاٹ کام کو بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں ’ کریک ڈاؤن’ کے دوران 500سے 600 افغانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
منیزہ کاکڑ نے الزام لگایا کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح، افغان ’ہراساں کرنے اور رشوت ستانی‘ کی شکایت کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مختلف علاقوں سے افغانوں کو حراست میں لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے ہی اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور راولپنڈی میں درخواستیں دائر کر چکے ہیں اور سندھ میں بھی اسی عمل کا آغاز کرنے سے پہلے ان کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کریک ڈاؤن کے بعد، افغان حراست میں لیے جانے کے خوف سے کام پر نہیں جا رہے۔
منیزہ کاکڑ نے نشاندہی کی کہ ملک میں کل 850000 اے سی سی ہولڈرز موجود ہیں جنہوں نے 2017 میں اپنے کارڈ حاصل کیے تھے۔ ان میں سے 70000 مبینہ طور پر کراچی میں مقیم تھے۔
دریں اثنا ایک پریس ریلیز کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’ افغان شہریوں کی بے دخلی کو غیر قانونی’ قرار دیتے ہوئے ’#undothedeadline‘ مہم شروع کی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے ’ہمیں انسانوں کی طرح سلوک کریں‘: پاکستان میں افغان غیر قانونی بے دخلی کے خطرے سے دوچار’ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کر کے مہم کا آغاز کیا۔
پریس ریلیز کے مطابق، ایمنسٹی کا مقصد غیر قانونی بے دخلی کے خطرے سے دوچار افغانوں کی آوازوں کو بلند کرنا، ان کے انسانی حقوق کے احترام کی وکالت کرنا اور پاکستان سے ان کی جبری بے دخلی کو روکنے کی فوری ضرورت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔
رپورٹ میں 10 افغان مہاجرین، پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جو طالبان کے زیر تسلط افغانستان واپس جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ صرف اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ پاکستان میں دہائیوں کی بنائی ہوئی زندگیاں بھی کھو سکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر بابو رام پنت کے حوالے سے ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستان میں افغان شہری جن میں مہاجرین اور پناہ کے متلاشی شامل ہیں، اکتوبر 2023 میں پاکستانی حکام کی جانب سے مرحلہ وار بے دخلی کے منصوبوں کے اعلان کے بعد سے خوف کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے افغان چار دہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان میں ہیں۔ پاکستان حکومت کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون، خاص طور پر نان-ریفوولمنٹ کے اصول کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی پر اصرار کے نتیجے میں ان کی زندگیاں مکمل طور پر درہم برہم ہو جائیں گی۔
بابو رام پنت نے خبردار کیا کہ 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں پناہ لینے والے افغان خاص طور پر خطرے میں ہیں، جن میں افغان خواتین اور لڑکیاں، صحافی، انسانی حقوق کے محافظ، خواتین احتجاج کرنے والی، فنکار اور سابق افغان حکومت اور سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ان افراد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جبری واپسی کی اپنی موجودہ پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ IFRP کا نفاذ یکم نومبر 2023 کو ہوا۔ 6 مارچ کے بیان میں کہا گیا، کہ تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو وطن واپس بھیجنے کے حکومتی فیصلے کے تسلسل میں، قومی قیادت نے اب اے سی سی ہولڈرز کو بھی وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
IFRP کے تحت، نومبر 2023 میں اس عمل کے آغاز کے بعد سے اب تک 700000 سے زائد غیر دستاویزی افغان پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے 22 مارچ کو کابل میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ساتھ ملاقات میں پاکستان سے اے سی سی ہولڈرز کو مزید وقت دینے کی درخواست کی تھی کیونکہ اتنے زیادہ لوگوں کی وطن واپسی سے ان کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔